اللہ والوں کے قصّے..<>. قسط نمبر 24.

ایک مرتبہ حسن بصریؒ تجارت کی غرض سے روم گئے اور جب وہاں کے وزیر کے پاس بغرضِ ملاقات پہنچے تو وہ کہیں جانے کی تیاری کر رہا تھا،

اس نے پوچھا۔’’کیا آپ بھی میرے ساتھ چلیں گے۔

حضرت اثبات پر دونوں گھوڑوں پر سوار ہو کر جنگل میں جا پہنچے۔وہاں آپ نے دیکھا کہ انتہائی قیمتی کپڑے کا ایک خیمہ ہے اور اس کے چاروں طرف مسلح فوجی طواف کر کے واپس جا رہے ہیں۔پھر علماء اور باحشمت افراد وہاں پہنچے اور خیمہ کے قریب کچھ کہہ کر رخصت ہو گئے۔پھر حکماء اور میر منشی وغیرہ پہنچے اور کچھ کہہ کر چل دیئے پھر نہایت خوبرد کنیزیں زرد جواہر کے تھال سر پر رکھے ہوئے آئیں اور وہ بھی اسی طرح کچھ کہہ کر چلی گئیں۔پھر بادشاہ اور وزیر بھی کچھ کہہ کر واپس ہوگئے۔آپ نے حیرت زدہ ہو کر جب وزیر سے واقعہ معلوم کیا تو اس نے بتایا

بادشاہ کا ایک خوبرو جوان بیٹا مر گیا تھااور وہی اس خیمہ میں دفن ہے ۔چنانچہ آج کی طرح ہر سال یہاں تمام لوگ آتے ہیں۔سب سے پہلے فوج آکر کہتی ہے کہ اگر جنگ کے ذریعے تیری موت ٹل سکتی تو ہم جنگ کرکے تجھے موت کے ہاتھوں سے واپس لے لیتے مگر اﷲ تعالیٰ سے جنگ کرنا ممکن نہیں۔اس کے بعد حکماء آکر کہتے ہیں کہ اگر عقل و حکمت سے موت کو روکا جا سکتا تو ہم یقیناً روک لیتے۔پھر علماء و مشائح آکر کہتے ہیں کہ اگر دعاؤں سے موت کو دفع کیا جا سکتا توہم دفع کردہے ۔پھر حسین کنیزیں آکر کہتی ہیں کہ اگر دعاؤں سے موت کو دفع کیا جاس سکتا تو ہم ٹال دیتیں۔پھر بادشاہ وزیر کے ساتھ آکر کہتا ہے کہ اے میرے بیٹے!ہم نے حکماء اور اطباء کے ذریعے بہت کوشش کی لیکن تقدیر الٰہی کو کون مٹاسکتا ہے ا ور اب آئندہ سال تک تجھ پر ہمارا سلام ہو۔یہ کہہ کر وہ واپس ہو جاتا ہے‘‘حضرت حسن بصریؒ نے یہ واقعہ سن کر قسم کھائی کہ زندگی بھر کبھی نہیں ہنسوں گا اور دنیا سے بیزار ہو کر فکر آخرت میں گوشہ نشیبی اختیار کر لی

حضرت حاتم اصمؒ نے لوگوں سے فرمایا۔

اگر اہل دنیا یہ پوچھیں کہ تم نے حاتم اصمؒ سے کیا حاصل کیا؟تو یہ کبھی نہ کہنا کہ ہم نے اس سے علم و حکمت حاصل کیے بلکہ یہ کہنا کہ ہم نے صرف دو باتیں سکھی ہیں۔اول یہ کہ جو شے اپنے قبضہ میں ہو اس پر خوش رہو۔دوم اس چیز کی توقع کبھی نہ رکھو جو اپنے قبضہ میں نہ ہو۔

کسی تو نگر نے آپ کوکچھ رقم دینے کی پیش کش کی تو آپ نے اسے منع کرتے ہوئے فرمایا۔

میں اس ڈر سے تم سے یہ رقم نہیں لیتا کہ تیری موت کے بعد مجھے اﷲ تعالیٰ سے یہ کہنے کا موقع نہ ملے کہ زمین کا رزاق تو مرگیا اس لیے اب تو میری ضروریات پوری کر

حضرت احمد حواریؒ کا اپنے پیر و مرشد حضرت سلیمان دارائی ؒ سے یہ معاہدہ تھا کہ ہم دونوں کسی بات میں بھی ایک دوسرے سے اختلاف نہیں کریں گے۔چنانچہ ایک مرتبہ حضرت سلیمان دارائیؒ عالم وجد میں تھے کہ آپ نے احمد حواریؒ سے فرمایا۔

کیا تنور گرم ہے پھر اسی وجدانی کیفیت میں آپ نے حضرت احمد حواری ؒ سے فرمای’’تم جا کر تنور میں بیٹھ جاؤ۔

یہ معاہدہ کے مطابق فوراً جلتے تنور میں جا بیٹھے اور پھر کچھ دیر کے بعد جب حضرت سلیمانؒ کو یاد آیا کہ میں نے تو حالتِ وجد میں احمد حواری کو تنور میں بیٹھنے کو کہہ دیا تھا۔اس بات کا خیال کرتے ہی آپ نے دیکھا تو احمد حواریؒ کو تنور میں بیٹھے پایا اور جب حضرت سلیمانؒ دارائی کے کہنے پر باہر نکلے تو آگ نے آپ کے اوپر کوئی اثر نہیں کیا تھا

جب حضرت احمد حضر ویہؒ اپنی بیوی کے ہمراہ حضرت با یزیدؒ سے ملاقات کیلئے پہنچے تو آپ کی بیوی نے ان سے نہایت بیباکانہ طور پر گفتگو کی اور ان کا طریقہ گفتگو آ پ کو سخت نا گوار گزرا اور آپ نے تنبیہہ کی کہ غیر مردوں سے بیبا کانہ گفتگو زیب نہیں دیتی۔

لیکن بیوی نے جواب دیاخواہش نفس کی تکمیل میں جس طرح آپ میرے راز داں ہیں اسی طرح حضرت با یزیدؒ خواہش طریقت میں میرے ہمراز ہیں اور انہی کی وجہ سے مجھے دیدار الہٰی نصیب ہوتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ تو میری صحبت کے متمنّی رہتے ہیں اور وہ اس سے بے نیاز ہیں

ایک دن حضرت با یزیدؒ نے ان کے ہاتھ پر مہندی لگی دیکھ کر پوچھا۔فاطمہ یہ مہندی کیوں لگائی ہے۔

انہوں نے عرض کیا۔’’اب تک آپ نے میرے ہاتھ اور مہندی پر نظر نہیں ڈالی تھی اس لیے میں آپ کے نزدیک بیٹھ جاتی تھی لیکن آج سے آپ کی صحبت میرے لیے ناجائز ہے۔‘‘اس کے بعد حضرت احمد ؒ بیوی سمیت نیشاپور میں مقیم ہو گئے

No comments:

Post a Comment