عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا۔------۔۔قسط نمبر35.

سلطان کی آواز قاسم کے کانوں میں پڑی تو اس نے فوراً گھوڑا پیچھے ہٹالیا۔ اور ہوا میں ا ڑتا ہوا سلطان کے پاس پہنچا ۔ سلطان نے قاسم کو حکم دیا ’’قاسم بن ہشام ! آن کی آن میں ینی چری کے تمام کمانداروں کو میر ایہ پیغام پہنچادو کہ دل چھوٹا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔آگے بڑھ کر لڑو اور دشمن کو معاہدہ شکنی کی سزادو۔ فتح ہماری ہوگی ۔
تھوڑی دیر بعد قاسم اپنے سالاروں اور کمانداروں کو سلطان کا پیغام پہنچارہا تھا ۔ لیکن سلطان ابھی تک خود مایوس تھا ۔ اچانک سلطان مراد خان ثانی کے کانوں میں شاہِ ہنگری ، لارڈ سلاس کی آواز پڑی...لارڈ سلاس انتہائی متکبرانہ انداز میں سلطان کو اپنے ساتھ مقابلے کے لیے للکاررہا تھا ۔ سلطان نے فوراً کمان میں ایک تیر جوڑا اور شاہی ہنگری کے گھوڑے کا نشانہ تاک کر چھوڑ دیا ۔ گھوڑا ہنہناتے ہوئے فضا میں اچھلا اور زخمی حالت میں دیوانہ وار اپنے سامنے کی جانب دوڑ پڑا۔ لارڈ سلاس نے سنبھلنے کی بہت کوشش کی ۔ لیکن زخمی گھوڑا چند قدم دوڑنے کے بعد عین خواجہ خیری کے دستے کے درمیان جاکر گر پڑا۔ گھوڑے کے ساتھ ہی لارڈ سلاس ینی چری سپاہیوں کے قدموں میں آگرا۔ خواجہ خیری نے فوراً اپنے گھوڑے سے چھلانگ لگائی اور تلوار سونت کر لارڈ سلاس کی جانب بڑھا ۔ معاہدہ شکن لارڈ سلاس موت کو سرپر دیکھ کر گڑگڑانے لگا۔ اور خواجہ خیری سے ہاتھ جوڑ کر کہا ’’سالار ! مجھے قتل مت کرو۔ مجھے گرفتار کرلو۔ تمہیں منہ مانگا انعام دونگا۔
لیکن غضبناک خواجہ خیری کو لارڈ سلاس کی معاہدہ شکنی کے سوا کچھ یاد نہ تھا ۔ اس نے ہنگری کے بادشاہ کی ایک نہ سنی ۔ اور اپنی تلوار کا وار کرکے لارڈسلاس کا سر کاٹ لیا۔ ہنگری کا بادشاہ اور معاہدۂ زیجیڈین پر دستخط کرنے والا اتحادی فوج کا سربراہ لارڈسلاس اپنے انجام کو پہنچ چکا تھا ۔ خواجہ خیری نے لارڈ سلاس کا سر اپنے نیزے کی نوک پر رکھا اور نیزے کو بلند کرکے عیسائیوں کی جانب بڑھا۔ ادھر معاہدۂ زیجیڈین کی نقل ایک نیزے پر پہلے بلند ہوتی ہوئی صلیبیوں کو دکھائی دے رہی تھی۔ اب جو ان کی نظر اپنے بادشاہ کے کٹے ہوئے سر پہ پڑی تو ان کے دل بیٹھ گئے۔ جنگ کے آغاز میں بد شگونی پیدا ہو ہی چکی تھی۔ اب لارڈ سلاس کا کٹا ہو ا سر دیکھا ۔ تو عیسائیوں کو یقین ہونے لگا کہ معاہدہ شکنی کی سزا سرپر آپہنچی ہے۔ اتحادی فوج کے سپہ سالار ہونیاڈے کی نظراپنے بادشاہ کے سر پر پڑی تو اس نے خواجہ خیری سے لارڈ سلاس کا سر چھین لینے کے لیے یکے بعد دیگرے زبردست حملے کیے لیکن ہر مرتبہ اسے شکست ہوئی کچھ ہی دیر بعد عیسائی مجاہدوں کا سپہ سالار اور پوپ کا نمائندہ کارڈ نیل جولین قاسم بن ہشام کے دستے کے نرغے میں آگیا۔ قاسم اسے نہیں پہنچانتا تھا ۔ لیکن اسے پیچھے سے آغاحسن کی چیختی ہوئی آواز سنائی دی
قاسم ! ..یہی ہے کارڈ نیل جولین ۔ جس نے یورپ کی تمام افواج کو مذہبی بنیادوں پر اکٹھا کیا ۔ اور عیسائیوں کو معاہدہ زیجیڈین توڑنے پر مجبور کیا ۔
یہ سننے کی دیر تھی کہ قاسم کے رگ وپے میں بجلیاں سی بھر گئیں۔ قاسم نے آگے بڑھ کر کارڈنیل جولین پر حملہ کردیا۔ قاسم کے ساتھی سپاہیوں نے قاسم کا ہاتھ بٹانے کی کوشش کی تو قاسم نے گرجدار آواز کے ساتھ انہیں منع کردیا ۔ قاسم نے کارڈ نیل جولین کو اپنی شمشیر کے کمالات دکھا دکھا کر جب ادھ موا کر دیا اور قریب تھا کہ وہ اپنے گھوڑے پر سے گر پڑتا کہ عیسائی لشکر کی جانب سے ایک سنسناتا ہوا تیر آیا اور قاسم کے بائیں بازو میں پیوست ہوگیا ۔ اب قاسم کے پاس جولین کے ساتھ کھیلنے کا مزید وقت نہیں تھا ۔ چنانچہ اس نے اپنا دایاں ہاتھ فضا میں بلند کیا ۔ اور پوری قوت سے جولین کے دائیں کندھے پر اپنی تلوار گرادی۔ قاسم کی تیز دھار تلوار جولین کی زرہ کو کاٹتی ہوئی اس قدر نیچے تک چلی گئی کہ جولین کا دھڑ دو شاخے کی شکل میں کٹ کررہ گیا ۔ جولین نے تمام عیسائیوں کو معاہدہ شکنی پر مجبور کیا تھا ۔ چنانچہ اس کا عبرتناک انجام دیکھ کر توہم پرست سپاہیوں کے پاؤں اکھڑنے لگے۔ اسی اثناء میں جولین کے ہمراہی دو اہم بشپ یکے بعد دیگرے کٹ کر گرے اور رزم گاہ کا نقشہ بدل گیا ۔ ینی چری نے عیسائیوں کو پسپا ہوتے دیکھا تو اپنے حملے اور زیادہ سخت کر دیے
اب ہونیاڈے مکمل طور پر مایوس ہوچکاتھا ۔ اس نے ایک بار اپنے دستوں کو سمیٹنے کی کوشش کی اورجم کر لڑنا چاہا۔ مگر اسے کامیابی نہ ہوئی ۔ اور آخر کار عیسائی دستوں کے ساتھ بمشکل جان بچا کر بھاگا۔ یوں دیکھتے ہی دیکھتے مسلمانوں نے صلیبیوں سے میدان خالی کرالیا۔ لڑائی میں اتحادیوں کا دو تہائی حصہ قتل ہوگیا ۔شاہ لارڈ سلاس کے علاوہ ہلاک ہونے والوں میں دو مشہور بشپ اور بعض نہایت ممتاز فوجی افسر بھی تھے۔ لیکن سب سے زیادہ عبرت انگیز نعش کارڈ نیل جولین کی تھی جو معاہدۂ زیجیڈین کی شکست کا خاص محرک اور عیسائیوں کی ہلاکت کا اصلی سبب تھا ۔ جس گناہ کو اپنے سر لے کر اس نے ہنگری کی مجلسِ قومی کو عثمانی سلطنت پر حملہ کرنے کے لیے آمادہ کیا تھا ۔ اس کی لاش اس گناہ کے وبال کا ایک ایسا مرقع تھی جو مکافاتِ عمل کی خدائی قانون کو فاتح و مفتوح دونوں کے سامنے مجسم شکل میں پیش کررہی تھی
۱۰ نومبر کے روز سلطان نے عیسائیوں کو معاہدہ شکنی کی عبرت ناک سزادی۔ اور ۱۱ نومبر کے روز سلطان نے آگے بڑھ کر وارنا کا انتظام ایک دفعہ پھر سنبھال لیا۔ لیکن اس مرتبہ غضبناک سلطان جلد واپس لوٹنے والا نہیں تھا ۔ اس نے اپنی یلغار جاری رکھی۔ اور چند ہی دن بعد سربیا اور بوسنیا کو فتح کرلیا۔ یہ دونوں ممالک یونانی کلیسا کے ماتحت تھے۔ چنانچہ ان دونوں ملکوں نے بلا چون و چراں سلطان کی اطاعت قبول کرلی۔ہونیاڈے لاطینی کلیسا کو مانتا تھا ۔ اور رومن کیتھولک مذہب کا پیروکار تھا ۔ ’’سربیا کے بادشاہ جارج برنیکو وچ‘‘ نے ایک مرتبہ جب ہونیاڈے سے دریافت کیا کہ اسے کامیابی حاصل ہوئی تو مذہب کے متعلق اس کا رویہ کیا رہے گا۔ تو اس نے جواب دیا کہ میں سربیا کو رومن کیتھولک مذہب اختیار کرنے پر مجبور کروں گا.........اب جب سلطان مراد خان ثانی جارج برنیکو وچ کے ملک پر ننگی تلواریں لے کر پہنچا تو جارج نے وہی سوال سلطان سے بھی کیا ۔ تو سلطان نے جواب دیا کہ میں ہر مسجد کے پاس ایک چرچ بنوادوں گا ۔ اور لوگوں کو پوری آزادی ہوگی کہ اپنے اپنے مذہب کے مطابق خواہ مسجد میں خواہ چرچ میں جاکر عبادت کریں۔ (سربیا کا مؤرخ رانکی Ranke) .یہی وجہ تھی کہ جارج برنیکو وچ نے سلطان کی فوجوں کو روکنے کی کوشش نہ کی اور اپنا ملک اس کے حوالے کردیا۔ یہی صورتحال بوسنیا میں بھی پیش آئی اہل بوسنیا بھی رومن کیتھولک مذہب سے نفرت کرتے تھے ۔ چنانچہ انہوں نے آٹھ روز کے اندر اندر بوسنیا کے ۷۰ قلعوں کے پھاٹک سلطان کے لیے کھول دیے۔ بوسنیا کے شاہی خاندان نیست و نابود ہوکر سلطنتِ عثمانیہ میں شامل ہوا



 

No comments:

Post a Comment