اللہ والوں کے قصّے...<> قسط نمبر 27.

حضرت لعل حسینؒ کا واقعہ ہے کہ دریائے سندھ میں طغیائی آئی ہوئی تھی. اس علاقہ کا دریا میں غرق ہونے کا خطرہ تھا۔ لوگوں نے آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی اکہ اب دریائے سندھ سخت جوش میں ہے۔ کیا کیا جائے، توجہ فرمائیں۔ اس پر آپ دریائے سندھ کے کنارے تشریف لے گئے اور ایک لکڑی کا ٹکڑا زمین میں گاڑ دیا پھر دعا کرتے ہوئے فرمایا.
 یہ دریا کی حد ہے۔ آئندہ اس جگہ سے آگے دریائے سندھ نہیں بڑھے گا.
آپ کی زبان کا یہ اثر ہوا کہ کرور لعل حسین کا شہر بالکل دریائے سندھ کے کنارے پر ہے لیکن آج تک اس جگہ سے دریائے سندھ نے تجاوز نہیں کیا
ایک مرتبہ سخت قحط پڑ گیا جس پر لوگوں نے حضرت لعل حسینؒ کی خدمت میں حاضر ہو کر بارش کے لیے دعا کرنے کے لیے عرض کیا۔آآپ نے دعا فرمائی، خوب بارش ہوئی ، پھر لوگوں نے شکایت کیاب گندم کا بیج نہیں ہے ، کیا بوئیں فصل کیسے ہوگی.
آپ نے فرمایا. بھوسہ زمین میں ڈال دو۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے گندم کے بیج کا کام دے گا۔
اس پر لوگوں نے واقعی گندم کا بھوسہ زمین میں ڈال دیا۔ گندم خوب ہوئی اور قحط سالی کا خاتمہ ہوگیا


ایک دفعہ حضرت احمد حضرویہؒ کسی بزرگ کی خانقاہ میں بوسیدہ لباس پہنے ہوئے پہنچے تو وہاں کے لوگوں نے آپ کو حقارت سے دیکھا لیکن آپؒ خاموش رہے۔ پھر ایک مرتبہ کنویں میں ڈول گر گیا۔ تو آپؒ نے اُنہیں بزرگ کے یہاں جا کر کہا کہ دُعا فرما دیجئے کہ ڈول کنویں سے باہر آجائے۔ یہ سن کر وہ بزرگ حیرت زدہ رہ گئے لیکن آپ ؒ نے فرمایا۔ اگر اجازت ہو تو میں خود دعا کردوں۔
چنانچہ اجازت کے بعد جب آپؒ نے دعا فرمائی تو ڈول خودبخود کنویں سے باہر آگیا۔ یہ دیکھ کر اُن تمام لوگوں نے آپ ؒ کی تعظیم کی تو آپ نے فرمایا۔’’ اپنے مریدوں کو ہدایت فرمائیں کہ مسافر کو تحقیر کی نظر سے نہ دیکھا کریں
حضرت بو علی شاہ قلندرؒ کا حافظہ بہت اچھا تھا۔ ایک مرتبہ جوبات سن لیتے وہ دل میں اتر جاتی۔ ابتدائی عمر میں ہی آپ نے تمام علوم حاصل کر لیے۔ آپ بڑے بڑے مسائل منٹوں میں حل کر دیتے تھے۔ ایک دن اچانک حضرت بو علی قلندرؒ کی طبیعت میں انقلاب آگیا۔ حاضرین معمول کے مطابق مجلس میں حاضر تھے مگر آپ نے کسی سے کوئی بات نہ کی ۔ لوگ حیران تھے کہ آپ تو بہت بامروت ہیں۔ اب یکایک کیوں بے رُخی سے پیش آرہے ہیں۔ جب آپ سے اس خاموشی اور بے مردتی کی وجہ پوچھی تو آپ نے فرمایا۔
یہ ہجوم کیسا ہے ؟ لوگ کیوں کھڑے ہیں ؟ جاتے کیوں نہیں ، ہر طرف ہی آگ ہے۔‘‘ پھر آپ نے تمام کتابیں اپنے سر پر رکھیں اور انہیں دریامیں بہا کر کہا۔ ’’ میں نے اپنی عقل کا سرمایا غرق کر دیا علم کی محفل بکھر گی


یہ کہہ کر آپؒ دریا کے پانی میں اُتر گئے۔ آپ ؒ نے دریا میں کھڑے ہو کر طویل چلہ کشی کی۔ یہاں تک مچھلیاں آپ کے پاؤں کا گوشت بھی کھاگئیں


 

No comments:

Post a Comment