عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا۔......۔۔قسط نمبر39.

بوسنیا کی شہزادی
آپ کے سلطان نے عیسائی عبادت گاہوں کے بارے میں کیا حکم دیا ہے..کیا چرچ گرادیے جائیں گے؟ سنا ہے مسلمان اپنے مذہب کے معاملے میں بے حد متشدد ہوتے ہیں۔
سلطان نے تو حکم دیا ہے کہ سربیا اور بوسنیا میں جہاں جہاں مسجد بنائی جائے اس کے ساتھ ایک چرچ بھی بنایا جائے ۔ تاکہ عیسائیوں کو عبادت میں دشواری نہ ہو۔ اور وہ تمام چرچ جو پہلے سے موجود ہیں ویسے کے ویسے رہنے دیے جائیں۔


یہ تو بڑا عمدہ اقدام ہے۔ اس کے برعکس ہونیاڈے نے کہا تھا کہ وہ سربیا اور بوسنیا میں یونانی  چرچ گراکر رومن کیتھولک مذہب ‘‘ کے چرچ بنوادے گا
قاسم اور بوسنیائی شہزادی کے مابین بہت عمدہ مکالمہ جاری تھا۔ بوڑھا بارٹا کوزین ان کی باتیں غور سے سن رہا تھا ۔ اس نے جھجھکتے جھجھکتے قاسم سے ایک سوال کیا :۔
خدا وندِ یسوع مسیحؑ اور ا س کی ماں کے بارے میں تمہارا مذہب کیا کہتا ہے؟
قاسم کے ہونٹوں پر ایک دلفریب مسکراہٹ پھیل گئی ۔ وہ بولا
ہم انہیں خداوند نہیں کہتے۔ بلکہ اللہ کا برگزیدہ نبی مانتے ہیں۔ اور ان کی ماں کو حضرت مریم علیھا السلام کہہ کر کر پکارتے ہیں۔ اسلام اس عقیدے کو ہی نہیں مانتا کہ خدا تقسیم ہوسکتا ہے۔ یا کسی انسان کا باپ بن سکتا ہے۔
قاسم کی بات پر شہزادی نے چونک کر کہا:
یہ کیا بات ہوئی۔ اگر خدا وندِ یسوع مسیح ؑ خداوندِ خدا کے بیٹے نہیں ۔ تو پھر وہ کس کے بیٹے ہیں؟ کیا آپ ان کے باپ کا نام جانتے ہیں
شہزادی کے سوال سے قاسم کے چھکے چھوٹ گئے۔ اب بھلا وہ کیا کہتا ؟ اور کس کا نام بتاتا ؟ اور اگر وہ یہ کہتا کہ حضرت عیسیٰ ؑ بغیر باپ کے ایسے ہی ایک ماں کے پیٹ سے پیدا ہوگئے تو پھر بھی شہزادی مطمئن نہ ہوتی ۔ نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن کی سی کیفیت میں قاسم کو بولنا پڑا
’دراصل یہ کہہ دینے سے کہ عیسیٰ ؑ خدا کے بیٹے ہیں، خدا تعالیٰ کی ذات ایک جسمانی پیکر میں ڈھلی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ جبکہ خدا تو کسی جسم کا محتاج نہیں۔ یہ زمین و آسمان خود خدا کا ظہور ہیں..ظاہر ہے جب خدا نہ دکھائی دینے والی ایک محیط اور بسیط ہستی ہے۔ تو پھر وہ کیونکر کسی انسان کی رشتہ دار ہوسکتی ہے..اور رہی یہ بات کہ عیسیٰ ؑ کے باپ کون ہیں؟ تو حضرت عیسیٰ ؑ اس قادر و مطلق پروردگار کی قدرتِ کاملہ کا کرشمہ ہیں۔ کیونکہ وہ خدا جو کچھ چاہے کر سکتا ہے۔
اب شہزادی نے قاسم کو ایک اور الجھن میں ڈال دیا 
یہ جو آپ کہہ رہے ہیں کہ خدا جو کچھ چاہے کرسکتا ہے ۔ تو اس طرح آپ انسانی اختیار کے بارے میں کیا کہیں گے ؟ آپ کے مذہب میں خدا کے پاس کتنا اختیار ہے اور انسان کے پاس کتنا؟‘‘
اب قاسم سٹپٹا گیا ۔ وہ ایک سپاہی تھا ۔ کوئی مبلغ یا عالم نہ تھا ۔ کہ عیسائی شہزادی کے اس قدر مشکل سوالات کا جواب دیتا ۔ لیکن پھر بھی اس نے ہمت کی اور کہا:۔
’’شہزادی حضور ! یہ سارے سوالات در حقیقت خدا کے تصور سے ہی پھوٹتے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ آپ کے ذہن میں خدا کا تصور کس قسم کا ہے۔ عیسائی مذہب کی کتابوں میں خدا کا جو تصور پیش کیا گیا ہے۔ وہ خدا کو ایک جسمانی وجود میں دیکھتا ہے۔ ’’بائبل ‘‘ کے پہلے باب میں لکھا ہے کہ.خداوندِ خدا جو ٹھنڈے وقت باغ میں پھرتا تھا ۔ جب بولا تو آدم اور اس کی بیوی نے اس کی آواز سنی(بائبل باپ پیدائش)۔ اسی طرح دوسرے تمام مذاہب میں بھی خدا کو عجیب عجیب جسمانی شکلوں میں دیکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ آپ جانتی ہیں کہ بت پرست مذاہب میں تو باقاعدہ مٹی اور پتھر کے خدا بناکر پوجے جاتے ہیں
یہ جو آپ نے اختیار کی بات کی ہے اس کا مختصر جواب ہماری اپنی ذات میں موجود ہے۔ ہم غور سے دیکھتے ہیں تو ہمیں اپنی ذات کے دو حصے دکھائی دیتے ہیں۔ ایک وہ حصہ جس پر ہمارا کوئی اختیار نہیں۔ یعنی جسمانی ساخت، فطری ضروریات ، کھانا ، سونا یا بچے پیدا کرنا ..اور دوسرا وہ حصہ ہے جس پر ہمارا مکمل اختیار ہے۔ یعنی کسی کا تعاون کرنا، کسی سے ہمدردی یا محبت کرنا، سچی بات کہنا یا جھوٹ کا سہارا لینا،اللہ کی مخلوق کے ساتھ بھلائی کرنا یا برائی کا راستہ اپنانا۔
ہمارے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو کتاب لے کر آئے ہیں۔ وہ براہ راست اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔ بائبل مقدس کی طرح نہیں ۔ بائبل میں تو صرف روایات اور حضرت عیسیٰ ؑ کے ساتھیوں کے خطوط ہیں۔ ہماری کتاب کا نام قرآن حکیم ہے۔قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:۔ فا الھمھا فجورھا وتقوٰ ھا..یعنی اللہ نے انسانی شعور کو نیکی اور برائی کا الہام کر دیا ہے۔ اب یہ انسان پر منحصر ہے۔ وہ نیکی کا راستہ اپنائے یا برائی کا ۔ اللہ نے انسان کو بالکل ویسے الہام کیا ہے۔ جیسا الہام اس نے باقی مخلوقات کو بھی کر رکھا ہے۔ آپ دیکھیے! شہد کی مکھی کو یہ کس نے بتایا ہے کہ وہ ایک خاندان بلکہ سلطنت کی صورت میں رہے۔ اسی طرح بطخ کے بچے کو یہ کس نے بتایا ہے کہ وہ پانی کے تالاب میں چھلانگ لگادے۔ اور مرغی کے بچے کو یہ کس نے بتایا ہے کہ وہ چھلانگ نہ لگائے
بالکل اسی طرح کا الہام انسان کو بھی کیا گیا ۔ لیکن انسان چونکہ ان تمام مخلوقات سے افضل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسے شعور کی دولت عطا کرکے نیکی اور بدی کے دو الہاموں میں سے کسی ایک کو اپنانے کی کھلی چھٹی دی گئی ہے۔ تمام مخلوقات اللہ کے قوانین کی پابند ہیں۔ لیکن انسانی ذات صرف احکامِ الٰہی کی پابند ہے۔ دراصل انسان کے پاس کچھ زیادہ اختیار نہیں صرف ایک لمحے کا اختیار ہے۔ اور وہ ہے لمحہء موجود ۔ آپ کے پاس جو لمحہء حاضر ہے۔ آپ پر لازم ہے کہ آپ اس کا استعمال ٹھیک طریقے سے کریں۔ حتیٰ کہ نتائج کا اختیار بھی آپ کے ہاتھ میں نہیں۔ آپ اگر اپنے لمحے کا اختیار اس طرح کرتے ہیں کہ اپنے ہاتھ کو آگ میں ڈال دیتے ہیں تو لامحالہ آپ کا ہاتھ جل جائے گا۔ یہ ہے آپ کے غلط استعمال کا نتیجہ۔جو آپ کو دونوں جہانوں میں بھگتنا پڑے گا ۔ مادے کے جہان میں بھی اور روح کے جہان میں بھی۔ آپ کا ہاتھ بھی جلے گا۔ اور روح بھی گھائل ہوگی۔ لیکن اگر آپ اپنے اختیار کا استعمال درست کرتے ہیں۔ تو آپ کا اگلا لمحہ خود بخود درست ہوجائے گا۔ اس طرح آپ کے آنے والے تمام لمحات درست ہوتے جائیں گے۔ حتیٰ کہ آپ کی آخرت بھی درست ہوجائے گی۔ جسے ہم روح کا جہان کہتے ہیں۔ یہ ہے اسلام میں انسانی اختیار کا نظریہ۔
شہزادی کی آنکھیں حیرت سے پھٹی ہوئی تھیں۔ بوڑھا بارٹاکوزین جذبات کی شدت سے کانپ رہا تھا ۔ اور اس کی بیٹی ’’ماریا‘‘ پتھر کی طرح جامد و ساکت قاسم کو گھورے جارہی تھی۔ چند لمحے کے لیے کمرے میں سکوت چھاگیا ۔ کچھ دیر بعد بوسنیائی شہزادی بولی۔ اسے اپنی آواز کسی گہرے کنویں سے آتی ہوئی محسوس ہوئی:۔


آپ نے تو ہماری آنکھیں کھول دی ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے ہم پہلے کسی ان دیکھے زندان میں قید تھے۔ اس حقیقت کے کھلنے سے تو ہم اپنے آپ کو پہلی بار آزاد انسان محسوس کر رہے ہیں۔ لیکن یہ جو آپ نے آخرت کی بات کی تو پھر یہ آخرت کس طرح کی ہوگی؟
اب قاسم محسوس کر رہا تھا کہ کوئی غیبی قوت اس کی مدد پر مامور ہے۔ وہ بے جھجھک بول اٹھا:۔
’’آخرت؟ ..آخرت تو لازمی چیز ہے۔ جو آخرت نہیں مانتا ۔ وہ خدا کو نہ بھی مانے تو کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ ایسا خدا جو انسانوں کی آخرت کا منصف نہیں۔ خدا کہلانے کا حق دار بھی نہیں۔ ہمارے قرآن حکیم میں ہے کہ ہر عمل اور فکر کا لازمی نتیجہ مرتب ہوتا ہے۔ آ پ جو کچھ سوچتے ہیں۔ اس کی بھی آخر ت ہے اور جو کچھ کرتے ہیں۔ اس کی بھی آخرت..جب ہمارا لمحہء موجود درست ہوجاتا ہے تو ہمارا اس سے اگلہ لمحہ خود بخود درست ہونے کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔ اعمال کا اثر شخصیت پر بھی پڑتا ہے۔ کیونکہ اعمال انسانی روح کی یعنی اندرونِ ذات کی اصلاح بھی کرتے ہیں۔ اور جس کسی کی اندرونی ذات خوبصورت اور متوازن ہوجاتی ہے اس کی بیرونی ذات بھی خوبصورت اور باوقار ہوجاتی ہے۔ اس کو حسنِ عمل کہتے ہیں۔جب کسی کے اعمال بہت زیادہ مقدار میں اچھے ہوجائیں تو وہ اپنی ظاہری اور باطنی زندگی میں مطمئن اور شکر گزار سا رہنے لگتا ہے۔ اسلام میں اسے نفسِ مطمئنہ کہتے ہیں۔ جس کسی کے پاس نفسِ مطمئنہ آجائے وہ موت کے وقت مرتا نہیں۔ اس کا صرف جسم ختم ہوتا ہے۔ اور وہ پورے کا پورا زندہ سلامت اپنے خالقِ حقیقی کے پاس پہنچ جاتا ہے۔اس کو آخرت کہتے ہیں۔ وہ شخص جو نفسِ مطمئنہ لے کر جاتا ہے ۔ ہمیشہ کی زندگی حاصل کرلیتا ہے۔ اور اسے ہم جنتی کہتے ہیں۔ اور وہ شخص جس کا نفس مطمئن نہیں ہوتا ۔ کیونکہ اس نے اپنی زندگی میں اپنے لمحات کا استعمال غلط کرکے ایسے اعمال کیے ہوتے ہیں۔ جو اس کی اندرونی اور بیرونی ذات کو تباہ کردیتے ہیں۔ اسے مرنے کے بعد بار بار مرنا پڑتا ہے۔ اور وہ دہکتی ہوئی آتش ناک زندگی میں تااَبد مرتا ہی رہتا ہے۔اس کو ہم جہنم کہتے ہیں۔ یہ ہے ہمارا آخرت کا نظریہ۔
اب شہزادی انگشت بدندان ہو کر قاسم کی جانب ٹکٹکی باندھ کر دیکھ رہی تھی۔ وہ سوچ رہی تھی کہ مسلمان ایسے ہوتے ہیں۔ اس قدر متوازن اور خوبصورت عقائد کے مالک..اس نے دل میں فیصلہ کیا کہ وہ بھی بارٹا کوزین کے ساتھ اسلام قبول کرے گی۔ اب اسے قاسم سے مزید سوالات پوچھنے کی ضرورت نہ تھی۔ وہ تو خاموش رہی۔ لیکن بارٹا کوزین نے ایک سادہ سا سوال کردیا۔
قاسم بیٹا! اس کا مطلب ہے کہ جس قدر بھی نبی اور رسول آئے یہ سب خدا کے برگزیدہ بندے تھے۔ خود خدا یا خدا کے بیٹے نہ تھے۔
بالکل ! یہ سب اللہ کے چنے ہوئے لوگ تھے۔ نبی تو ہر زمانے اور ہر علاقے میں بھیجے گئے ہیں۔ دراصل ! پرانے زمانوں میں جب کوئی نبی یا رسول دنیا سے انتقال فرما جاتا ۔ تو ان کے بہت عرصہ بعد ان کے ماننے والے اپنی کم علمی اور کج فہمی کی وجہ سے اسے جدا ، خدا کا اوتار یا خدا کا بیٹا بنادیتے ۔ اب سمندر پار ہندوستان میں ’’رام‘‘ ، ’’کرشن‘‘ اور ’’گوتم‘‘ کو وہاں کے لوگوں نے خدا بنالیا ہے۔ حالانکہ ہوسکتا ہے وہ اللہ کے برگزیدہ بندے ہوں۔دراصل ! کسی بھی دور میں دنیا میں رہنے والے تمام کے تمام انسان بیک وقت صاحبِ شعور اور عقلمند نہیں ہوتے ۔ کچھ لوگ تو اللہ کے چنے ہوئے ہوتے ہیں۔ جنہیں ہم پیغمبر کہتے ہیں۔ یہ لوگ مرتبہء شعور میں سب سے بلند مقام پر ہوتے ہیں۔ یہ لوگ جب اپنی بات دوسرے انسانوں کو بتانے لگتے ہیں تو ایسے لوگوں کو جو صاحبِ شعور اور عقلمند ہوتے ہیں۔ یہ اپنی بات پوری طرح سمجھا کر اپنا ہمنوا بنالیتے ہیں۔ اور جن لوگوں کو ان کی بات سمجھ میں نہیں آتی ۔ وہ مراتبِ شعور میں نچلے درجے پر ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی زندگی کا سفر بھی سفرِ حیات میں پیچھے رہ جاتا ہے۔ انہیں ہم کافر کہتے ہیں۔ کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو تمام باتیں سمجھ کر بھی اپنے عارضی مفادات کے لیے حق کا راستہ اختیار نہیں کرتے اور سونے چاندی کی چمک دیکھ کر جانتے بوجھتے غلط راستے پر چل پڑتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو ہمارا قرآنِ حکیم منافق اور سخت کافر کہتا ہے۔ ہمارے نبی کریمؐ شعور اور دانشمندی کے جس مرتبے پر فائز ہیں۔ اس مرتبے تک کوئی انسان نہ پہنچ سکا ہے، نہ پہنچ سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو تمام انسانوں کے لیے اور تمام جہانوں کے لیے چن لیا ہے۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ اب کوئی نبی نہیں آئے گا۔ اور ہمارا یہ بھی عقیدہ ہے کہ ہمارے نبی پر نازل ہونے والی کتاب قیامت تک سب انسانوں کے لیے ہدایت کی آخری کتاب ہے ۔ ہمارے مذہب میں کسی دوسرے مذہب کے لیے رتی برابر بھی تعصب نہیں۔ جیسا کہ عیسائیوں کے دل میں ہمارے لیے ہے۔ ہم دنیا کے ہر انسان کو ایک امت کا فرد سمجھتے ہیں اور کسی انسان کو کسی دوسرے انسان کا غلام نہیں دیکھ سکتے ۔‘‘قاسم کا اندازِ گفتگو تینوں کے دل میں اتر گیا 
 

No comments:

Post a Comment