خلیفہ ہارون الرشید نے ایک مرتبہ قسم کھائی کہ وہ پیدل حج کو جائے گا اور جب حج کے دن قریب آئے تو عراق سے بیت اللہ تک نہایت قیمتی بیش قیمت مخملی فرش بچھائے گئے۔ اس پر خلیفہ پاپیادہ چلا۔ جب وہ چلتے
چلتے تھک گیا تو ایک مقام پر ایک میل کے سہارے بیٹھ گیا۔ اسی حالت میں تھا کہ سعد ون مجنوںؒ کا اس طرف سے گزر ہوا اور خلیفہ سے ملا
سعدونؒ نے چنداشعار پڑھے جن کا مضمون یہ تھا.مان لے اور فرض کرلے کہ دنیا تیرے موافق ہے لیکن کیا حاصل کیا موت نہ آئے گی۔ پس تو دنیا کو کیاکرلے گا تجھے تو ایک میل ہی کافی ہے۔ اے طالب دنیا خبردار ہو۔ دنیا کو اپنے دشمن کے لیے چھوڑے دے ۔جس طرح زمانہ نے تجھے ہنسایا، اسی طرح یہ زمانہ ایک دن تجھے رُلائے گا
ہارون الرشید نے جب یہ اشعار سنے ۔ ایک چیخ ماری اور بے ہوش ہو کر گر پڑا اور اتنی دیر بے ہوش رہا کہتین نمازیں فوت ہوگئیں
جب ہوش آیا تو حضرت سعدونؒ کو تلاش کروایا۔مگران کا کہیں پتہ نہ ملا
کسی شخص نے حضرت ذوالنون مصریؒ کو اطلاع دی کہ فلاں مقام پر ایک نوجوان عابد ہے. اس اطلاع پر جب آپ اس سے نیاز حاصل کرنے پہنچے تو دیکھا کہ وہ ایک درخت پر اُلٹا لٹکا ہوا. اپنے نفس سے مسلسل یہ کہہ رہا ہے کہ جب تک عبادت الٰہی میں میری ہمنوائی نہیں کرے گا۔ میں تجھے یوں ہی اذیت دیتا رہوں گا ۔ حتیٰ کہ تیری موت واقع ہوجائے
یہ واقعہ دیکھ کر آپ کو اس پر ایسا ترس آیا کہ رونے لگے اور جب عابد نوجوان نے پوچھا کہ یہ کون ہے ۔ جو ایک بے حیا معصیت کار پرترس کھا کر رو رہا ہے۔ اس پر اس نے حضرت ذوالنون مصری کو بتایا.چونکہ یہ بدن عبادت الٰہی پر آمادہ نہیں ہے۔ اس لیے یہ سزادے رہا ہوں.
آپ نے کہا .مجھے تو یہ گمان ہوا کہ شاید تم نے کسی کو قتل کر دیا ہے یا کوئی گناہ عظیم سرزو ہوگیا ہے۔‘‘
اس نے جواب دیا ۔’’ تمام گناہ مخلوق سے میل جول کی وجہ سے جنم لیتے ہیں۔ اس لیے میں مخلوق سے رسم و راہ کو بڑا گناہ تصور کرتا ہوں
آپ نے فرمایا: ’’ تم تو واقعی بہت بڑے زاہد ہو
اس نے جواب میں کہا۔ ’’ اگر تم کسی بڑے زاہد کو دیکھنا چاہتے ہو تو سامنے کے پہاڑ پر جا کر دیکھو
چنانچہ اس کے کہنے پر جب آپ پہاڑ پر پہنچے تو دیکھا کہ ایک نوجوان جس کا ایک پیر کٹا ہوا باہر پڑا تھا اور جسم بھی کیڑوں کی خورا ک بنا ہوا تھا۔ آپ نے اس سے اس صورتحال کے بارے میں پوچھا تو وہ نوجوان بولا۔
ایک دن میں اسی جگہ مصروف عبادت تھا کہ ایک خوبصورت عورت سامنے سے گزری جس کو دیکھ کر میں فریب شیطانی میں مبتلا ہوا، اس کے نزدیک پہنچ گیا۔ اس وقت مجھے یہ نداسنائی دی کہ اے بے غیرت تیس سال خدا کی عبادت و اطاعت میں گزار کر آج شیطان کی عبادت کرنے چلاہے ۔لہٰذا میں نے اُسی وقت اپنا ایک پیرکاٹ دیا ۔ اب آپ ہی بتائیے کہ آپ مجھ جیسے گناہ گار کے پاس کیوں آئے ہیں اور اگر واقعی آپ کو کسی بڑے زاہد کی جستجو ہے ، تو اس پہاڑ کی چوٹی پر چلے جائیے
لیکن جب پہاڑ کی بلندی کی وجہ سے آپ کا پہنچنا ناممکن ہوگیا تو اس نوجوان نے خود ہی اُس بزرگ کا قصہ شروع کردیا۔ اُس نے بتایا۔
پہاڑ کی چوٹی پرایک بزرگ ہیں ، اُن سے ایک دن کسی نے یہ کہہ دیا کہ روزی محنت سے حاصل ہوتی ہے ، بس اس دن سے انہوں نے یہ عہد کرلیا کہ جس روزی میں مخلوق کا ہاتھ ہوگا وہ میں استعمال نہیں کروں گا اور جب بغیر کچھ کھائے چند دن گزر گئے تو اللہ تعالیٰ نے شہد کی مکھیوں کے حکم دیا کہ ان کے گرد جمع ہو کر انہیں شہد مہیا کرتی رہیں۔ چنانچہ ہمیشہ وہ شہد ہی استعمال کرتے ہیں
یہ سن کر حضرت ذوالنونؒ نے درس عبرت حاصل کیا اور اُسی وقت سے ریاضت و عبادت میں مصروف ہوگئے۔
ایک دفعہ حضرت بایزید بطامیؒ کسی بزرگ سے نیاز حاصل کرنے پہنچے ۔ جس وقت آپ ان کے نزدیک جا بیٹھے تو دیکھا کہ انہوں نے قبلہ کی جانب سے تھوک دیا۔ یہ دیکھ کر آپ ملاقات کیے بغیر واپس آگئے اور لوگوں سے فرمایااگر وہ بزرگ مدارج طریقت کو جانتا تو شریعت کے منافی کام نہ کرتا
آپ کے ادب کا یہ عالم تھا کہ مسجد جاتے وقت راستے میں بھی نہ تھوکتے. سفرِ حج میں چند قدموں کے بعد آپ نماز ادا کرتے ہوئے فرماتے کہ بیت اللہ دنیاوی بادشاہوں کا دربار نہیں جہاں انسان ایک دم پہنچ جائے.اسی احترام کی بدولت آپ بارہ سال کے بعد مکہ معظمہ پہنچے
ایک دفعہ کوئی درویش حضرت شاہ رُکن عالمؒ کی ، جو کہ حضرت زکریا ملتانیؒ کے پوتے تھے شہرت سن کر خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کے چہرے پر نور دیکھ کر اس نے اپنے دل میں سوچا کہ اس کا راز آپ کی غذا میں پوشیدہ ہے۔ اُس نے فیصلہ کیا کہ میں آپ سے وہی غذا طلب کروں گا جو آپ خود کھاتے ہیں۔
حضرت شاہ صاحبؒ کی خانقاہ میں درویشوں کے لیے جو غذا مہیا کی جاتی تھی۔ وہ کسی امیر کے دستر خوان پر بھی نہ ہوتی تھی۔ درویش نے یہ غذا کھانے سے انکار کر دیا اور اصرار کیا کہ میں دہی غذا کھاؤں گا جو شاہ صاحبؒ کھاتے ہیں۔ لوگوں نے اس کو بہت سمجھایا مگر وہ باز نہ آیا۔
آخر شاہ رکن عالمؒ کو اطلاع دی گئی اور انہوں نے اپنے دسترخوان سے اُس کے لیے کھانا بھجوایا۔ درویش یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اس میں جو کی روٹیاں اور بے نمک سبزی کے سوا کچھ نہ تھا وہ دیکھ کر بہت شرمندہ ہوا اور تنہائی میں جا کر حضرت سے معافی مانگی
No comments:
Post a Comment