عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھ-------ا۔۔۔قسط نمبر40.

انہیں قاسم کی باتیں ایک عام فہم گفتگو کی طرح محسوس ہوئیں۔ کچھ دیر بعد شہزادی نے انتہائی مرعوب لہجے میں کہا.
معزز مہمان ! میں نے دل سے فیصلہ کر لیا ہے کہ میں اپنا آبائی مذہب عیسائیت ترک کے کے آپ کا مذہب اسلام اختیار کروں گی۔
شہزادی کی بات ختم ہی ہوئی تھی کہ بارٹا کوزین بول اٹھا:۔
چلو !یہ تو اور بھی اچھا ہوا۔ اب آپ ہم سب کو مسلمان کر دیجیے۔ آپ ہمیں بتائیے ! کہ ہمیں مسلمان ہونے کے لیے کیا کرنا پڑے گا۔ کیا ہمیں صلیب کی طرح کوئی چیز گلے میں لٹکانی پڑے گی، یا کچھ اور
نہیں ! آپ کو کچھ بھی نہیں کرنا پڑے گا۔ آپ کو صرف سچے دل سے پورے ہوش و حواس کے ساتھ اور پورے اخلاص کے ساتھ یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ اس عارضی زندگی میں دنیا کے سارے دھندے اس وقت تک بے مقصد ہیں۔ جب تک کسی پائیدار زندگی کو حاصل کرنے کی تگ و دو ان میں شامل نہ ہو۔ آپ حیوانوں میں دیکھ لیجیے! ایک جانور بھی مرتا ہے ، تو زندہ ہونے کے لیے۔ آپ دیکھتے ہیں کہ ایک بلی چوہے کو دبوچ لیتی ہے اور چوہا مرجاتا ہے۔ اسلام میں شہید کی جو موت ہوتی ہے وہ پوری قوم کی حیات ہوتی ہے۔ ہم جانوروں میں تو یہ دیکھتے ہیں۔ لیکن ہم انسان خود اس حقیقت پر یقین نہیں رکھتے ۔ جانور تو محض اپنی اگلی نسل میں زندہ ہوتے ہیں۔ لیکن انسان کو جو زندگی مرکر ملتی ہے ۔ وہ صرف نسل کی بقاء پر موقوف نہیں۔ بلکہ ہر قسم کی مادی آلائش سے ماورا ایک خالص روحانی زندگی ہوتی ہے۔آپ کو مسلمان ہونے کے لیے اسی زندگی پر ایمان لانا ہوگا۔ اور یہ بھی ماننا ہوگاکہ اس زندگی کا مالک اللہ ہے۔ جو واحد لاشریک ہے۔ اور ارض و سمٰوات کا اکلوتا الہہ ہے۔ صرف اسی کی اطاعت انسان پر فرض ہے۔ اور دنیا میں موجود باقی ہر چیز کا خوف دل سے دور کرنا تو حید ہے۔آپ کو صرف چند کلمات ادا کرنے ہوں گے ۔ اگر آپ کا ایمان ان حقائق پر دل سے قائم ہوچکا ہے تو چلیے میں آپ کو کلمہ پڑھا دیتا ہوں۔ کلمہ پڑھنے کے بعد آپ ظاہری طور پر بھی مسلمان ہو جائیں گے
’’لاالٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم)‘‘


اور پھر اس خیال سے ان کے لیے اسلامی نام بھی تجویز کردیے تاکہ بوسنیا کے لوگوں میں ان کی انفرادیت اسلامی نامو ں کی وجہ سے قائم ہوسکے۔ قاسم نے بارٹا کوزین کے لیے ’’عباس‘‘، بوسنیائی شہزادی کے لیے ’’حمیرا‘‘ اور ماریا کے لیے ’’مریم‘‘ نام تجویز کیا ۔ تینوں نومسلم بے حد خوش تھے قاسم ان کے ساتھ دیر تک اسلامی اعمال و فرائز ، نماز ، روزہ ، حج، زکوٰۃ او ر جہاد کے موضوع پر باتیں کرتا رہا۔ اور انہیں دیر تک اسلامی اعمال و فرائض ادا کرنے کے طریقے سمجھاتا رہا۔
کسی کو پتہ بھی نہ چال اور رات گزر گئی۔ قاسم نے نمازِ فجر با جماعت ادا کروائی اور اس کے حلق سے قرآن حکیم کی شیریں تلاوت سن کر تینوں نومسلم وجد میں آکر رونے لگے۔
صبح دن چڑھے قاسم لشکر گاہ لوٹا اور اپنے خیمے میں آکر سو گیا ۔سلطان مراد خان ثانی چند روز بوسنیا میں مقیم رہا ۔ اور پھر لشکر کا پڑاؤ اٹھا لیا۔ اب وہ واپس دارالسلطنت ادرنہ کی جانب کو چ کر رہا تھا ۔ اس دوران قاسم نے سلطان سے البانیہ جانے کی اجازت لینا چاہی تھی۔ لیکن سلطان نے انکار کر دیاتھا ، اور کہا:۔
’’قاسم بن ہشام ! یہ وقت نہیں کہ تمہیں دارالسلطنت یا لشکر سے دور بھیج دیا جائے۔ ہم ابھی پے در پے یلغاروں سے فارغ ہوئے ہیںَ ابھی حالات کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا ۔ ہونیاڈے ابھی زندہ ہے اور اس کے پرچم تلے ابھی ہنگری کی پوری فوج موجود ہے۔ ہم ہونیاڈے کو بھی ضرور سبق سکھائیں گے ۔ لیکن ابھی ہم اپنے تھکے ہوئے لشکر کو واپس دارالسلطنت لے جانا چاہتے ہیں۔ تم ہمارے ساتھ ادرنہ چلو۔ وہاں سے ہم تمہیں البانیہ جانے کی اجازت دے دیں گے
چنانچہ قاسم کو لشکر کے ہمراہ ادرنہ کی طرف لوٹنا پڑا۔
ابھی سلطانی لشکر ’’ادرنہ ‘‘ پہنچا بھی نہ ہوگا کہ ادھر بوسنیا میں ایک دن بوسنیائی شہزادی نے جو اب حمیرا تھی ، اچانک اعلان کیا ........کہ وہ بوسنیا میں رہنے کی بجائے اسلامی دارا لسلطنت ادرنہ جانا چاہتی ہے۔ حمیرا اکیلی تھی اس کے والدین اور دوسرے رشتہ دار یا جنگ میں کام آگئے تھے یا پھر دور دراز کے علاقوں میں فرار ہوچکے تھے۔ بوسنیا کے شاہی خاندان کا خاتمہ ہوچکا تھا اور عباس کے سوا کوئی اس کا پرسان حال نہیں تھا ۔ یہ وجہ تھی کہ اس نے ایک اسلامی شہر میں جاکر زندگی بسر کرنے کا فیصلہ کیا ۔ اس کی بات عباس اور مریم نے سنی تو وہ بھی اس کے ہمراہ چلنے کے لیے تیار ہوگئے۔ چنانچہ ان تین افراد پر مشتمل یہ قافلہ بھی لشکر کے تیئسویں۲۳ روز ادرنہ کی جانب چل کھڑا ہوا
سلطانی لشکر باغیوں کو سزائیں دے کر اور حدودِ سلطنت کو پہلے سے زیادہ وسیح اور مضبوط کر کے دوبارہ ادرنہ پہنچ آیا۔ قاسم میدانِ جنگ سے کامیاب و کامران لوٹا تھا ۔ اس کی باتیں اور واقعات سن کر اس کے اہل خانہ باغ باغ ہوگئے۔ اس کے بھائی طاہر نے اس کا ماتھا چوما۔ اس کے والدین سے اسے سینے سے لگایا۔ اور اس کے بھتیجوں نے خوب شور مچامچا کر آسمان سر پر اٹھا لیا۔ لیکن اس کے دل میں ابھی ایک کسک تھی ۔ جو اسے کسی پل چین نہ لینے دیتی تھی۔ اور وہ تھی گم شدہ مارسی کی یاد۔
اس نے مارسی کے ساتھ سدا ایک ساتھ رہنے کے عہدو پیمان کیے تھے۔ اور اب مارسی کے بغیر اسے یو لگتا تھا جیسے ساری کی ساری دنیا ویران پڑی ہے۔ بالآخر لشکر کی واپسی سے تیسرے روز اس نے سلطان سے مل کر اجازت لینے کا ارادہ کیا اور سفر کی تیاری کرنے لگا۔ وہ چاہتا تھا کہ اجازت ملتے ہی ذراسی دیر کیے بغیر وہ البانیہ کی جانب روانہ ہوسکے۔وہ سہہ پہر کے بعد گھر سے نکلا۔ تاکہ بعد ازنمازِ مغرب سلطان کو اس کے محل میں مل سکے ۔ وہ اپنے مخصوص گھوڑے پر سوار ادرنہ کے بڑے بازار سے گزر رہا تھا اور دل ہی دل میں یہ دعا کر رہا تھا کہ سلطان اسے فی الفور البانیہ جانے کی اجازت دے دے ۔ جب سے سلطانی لشکر واپس لوٹا تھا ادرنہ کے بازاروں میں بھیڑ بڑھ گئی تھی۔ عیسائی لشکر سے چھینا گیا مالِ غنیمت اناج، گھوڑے ، تلواریں ، لباس اور نہ جانے کیا کیا ، ادرنہ کے بازاروں میں فروخت ہورہا تھا ۔ لیکن قاسم ہر چیز سے بے نیاز مارسی کے بارے میں سوچتا مہر بلب گزرتا چلا جارہاتھا۔ اچانک اسے ایک چوک پر پوری قوت کے ساتھ اپنے گھوڑے کی لگامیں کھینچ لینی پڑیں۔ اس کی آنکھیں حیرت سے ابل پڑیں۔ اور منہ کھلے کا کھلا رہ گیا ۔ اس کے سامنے مارتھاکی ادھیڑ عمر خادمہ کھڑی تھی
وہی خادمہ جو مارتھا کے قتل کی چشم دید گواہ تھی ادھیڑ عمر خادمہ زندہ بچ گئی تھی۔ مارتھا کے گھر سے بے گھر ہونے کے بعد اب تک وہ ماری ماری پھر رہی تھی۔ لوگ اسے بھکارن سمجھ کر کھانے پینے کو کچھ کو دے دیتے ۔ اور وہ جامعہ مسجد کے دروازے پر سو رہتی ۔ قاسم اسے پہچانتا تھا ۔ اس نے ادھیڑ عمر خادمہ کو دیکھا تو کود کر گھوڑے سے نیچے اتر آیا ۔ اور انتہائی تیز تیز قدم اٹھا تا ہوا ایک خانچہ فروش کے نزدیک کھڑی مفلوک الحال خادمہ کے سامنے پہنچ گیا ۔ پہلے کچھ دیر تو خادمہ قاسم کو پہچان ہی نہ سکی ۔ اور پھر جونہی اس کی آنکھوں میں شناسائی کی چمک نظر آئی۔ وہ چیخ مارکر قاسم کے قدموں میں گر پڑی۔ اب وہ باقاعدہ رو رہی تھی۔ قاسم نے سرِ بازار خود کو تماشہ بنتے دیکھا اور خادمہ کو شانوں سے پکڑ کر اٹھا لیا۔ وہ مارسی کی خادمہ کو اپنے ہمراہ لے جانا چاہتا تھا ۔ اب اس نے سلطان سے ملنے کا ارادہ ملتوی کردیا تھا۔ اس نے سوچا کہ مارسی کی خادمہ کی سرِ رہ ملاقات یقیناًقدرت کا اشارہ ہے۔ لہٰذا بہتر یہی ہے کہ پہلے مارسی کی خادمہ سے واردات کی تفصیل دریافت کر لی جائے۔ وہ مارسی کی خادمہ کو کرائے کی سواری میں سیدھا گھر لے کر آگیا ۔
سورج شام کی گود میں لوریاں سننے کے لیے جانے والا تھا ۔ جب قاسم اپنے گھر میں داخل ہوا۔ گھر میں سب موجود تھے ۔ سب سے پہلے قاسم کی بھابھی نے ادھیڑ عمر خادمہ کو دیکھا اور حیرت سے اپنے ہاتھ کا کام چھوڑ کر اٹھ کھڑی ہوئی۔ قاسم نے سنجیدہ چہرے سے بھابھی کی جانب دیکھا اور کہا:۔
’’یہ غزالہ کی خادمہ ہے۔ غزالہ کے اغواء سے لے کر اب تک ماری ماری پھر رہی ہے۔ آج کے بعد یہ یہیں رہے گی۔ یہ گھر کے کام کاج میں آپ کا ہاتھ بٹائے گی۔‘‘
سکینہ قاسم کی بات سن کر تیزی سے آگے بڑھی اور مارسی کی خادمہ کو گلے سے لگالیا۔ لیکن مارسی کی خادمہ قاسم کی بات کے بعد پھٹی پھٹی آنکھوں کے ساتھ قاسم کو دیکھ رہی تھی۔ اس کے ہونٹ کچھ کہنے کے لیے ہلنا چاہتے تھے ۔ لیکن یوں لگتا تھا جیسے کسی نادیدہ قوت نے اس کو بولنے سے روک دیا ہو۔ پھر اس کے ہونٹوں سے بمشکل چند الفاظ ادا ہوئے۔
’’یہ .......یہ غزالہ کون ہے؟ کیا آپ مارسی بی بی کو غزالہ کہتے ہیں؟ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ مارسی بی بی اغوا ہوئی ہے ۔ تو آپ کو بہت بڑی غلط فہمی ہے۔‘‘
اتنا کہہ کر خادمہ خاموش ہوگئی۔ اور قاسم کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ تو کیا مارسی اغواء نہیں ہوئی۔ اگر وہ اغواء نہیں ہوئی تو وہ کہاں گئی؟ قاسم کا دل زور زور سے دھڑ کنے لگا۔ وہ دل ہی دل میں بڑی تیزی کے ساتھ دعائیں مانگنے لگا کہ کاش مارسی خیر خیریت سے ہو۔ لیکن خادمہ کی بات سے اس کا رنگ فق ہوچکا تھا ۔ اسے محسوس ہورہاتھا کہ خادمہ کوئی بری خبر سنانے والی ہے۔ اس نے ہمت کر کے پوچھا:۔
’’کک .......کیا مطلب ؟ تم کیا کہنا چاہتی ہو.....مارسی اغواء نہیں ہوئی تو کہاں گئی؟‘‘
لیکن خادمہ قاسم کو جواب دینے کی بجائے دھاڑیں مار مار کر رونے لگی۔ خادمہ کی دھاڑیں سن کر قاسم کا باپ ہشام ، اس کا بھائی ، اس کی ماں حتیٰ کہ اس کے ننھے بھتیجے بھی جمع ہوگئے۔ خادمہ ہچکیاں لے لے کر رو رہی تھی۔ سب گھر والوں نے مل کر اسے بمشکل چپ کروایا اور مارسی کے بارے میں دریافت کیا ۔ خادمہ نے ہچکیوں بھری آواز میں کہا:۔
’’مارسی بی بی بھی اپنی ماں کے ساتھ چلی گئی ہے۔‘‘
’’یہ جھوٹ ہے۔ اگر ایسی بات ہے تو اس کی ماں کی اکیلی نعش کیوں ملی ہے۔ قاسم کے بھائی نے جذباتی ہوکر پوچھا ۔ خود قاسم تو گم صم کھڑاتھا ۔ قاسم کی ماں اور بھابھی نے بھی طاہر کی بات دھرائی۔ تب خادمہ نے کہا:۔
’’میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا مارسی بی بی نے اپنی ماں کے قتل کے بعد حملہ آوروں کا خوب ڈٹ کر مقابلہ کیا اور پھر جب تھک گئیں۔ تو اپنی آبرو بچانے کے لیے اپنی تلوار اپنے پیٹ میں گھونپ لی۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ مارسی بی بی کے لہو سے اس کا پورا جسم لت پت ہورہا تھا ۔ اور وہ آخری ہچکی لے کر اپنی ماں کے پاس چلی گئی تھیں.......پھر ابو جعفر اور اس کے ساتھی نے مارسی بی بی کی نعش کو اٹھایا اور اپنے ساتھ لے گئے۔ باہر ان کا ایک ساتھی بھی موجود تھا ۔ میں نے یہ سارا سانحہ اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے.......میں اس سانحے کے بعد آپ کے گھر آنا چاہتی تھی۔ لیکن معلوم نہیں تھا کہ آپ کہاں رہتے ہیں۔ میرے اندر محل میں جانے کی جرأت نہ تھی۔ میں نے بازار میں بہت سے لوگوں سے آپ کا پتہ پوچھا۔ لیکن مجھے کسی نے کچھ نہ بتایا۔‘‘
قاسم کی مٹھیاں بھچی ہوئی تھیں۔ اور ایک طرف دیوار سے لگ کر کھڑا تھا ۔ جبکہ اس کی ماں اور بھابھی خادمہ کی باتوں کے ساتھ ساتھ آنسو بہا رہی تھیں۔ طاہر کے پاس اب کہنے کے لیے کچھ نہ تھا ۔اتنے میں بوڑھے ہشام کی بارعب آواز گونجی۔
’’یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ اس وقت غزالہ بے ہوش ہو۔ اور وہ اسی لیے اسے اٹھا کر لے گئے ہوں۔ اگر وہ شہید ہوگئی ہوتی تو وہ لوگ اسے اٹھا کر ہی کیوں لے جاتے۔ لیکن مارسی کی خادمہ نے زور زور سے نفی میں سر ہلایا اور کہا:۔


’’نہیں نہیں!! مارسی بی بی کی گردن ڈھلک چکی تھی۔ اور پھر انہوں نے جس طرح اپنے آپ کو تلوار گھونپی تو اس سے صاف ظاہر تھا کہ وہ اگر بچ بھی جاتیں تو ہوش میں آتے ہی خود کو پھر ختم کرلیتیں۔ میں یقین سے کہتی ہوں کہ مارسی بی بی بھی شہید ہوچکی ہیں۔‘‘
قاسم کو تو جیسے سکتہ سا ہوگیا تھا ۔ وہ سب کو ان کے حال پر چھوڑ کر دوسرے کمرے میں آگیا ۔ مارسی اس کی محبت تھی۔ وہ اور مارسی کچھ ہی دنوں بعد ایک ہونے والے تھے۔ قاسم کو اس کے ساتھ گزرا ہوا یک ایک لمحہ یاد آنے لگا۔ اس کے دل کو یقین نہ آرہاتھا کہ مارسی مرچکی ہوگی۔ لیکن یقین کرنے کے سوا ب اس کے پاس چارہ بھی تو نہیں تھا ۔ ابو جعفر نے جھوٹ بولا تھا کہ مارسی زندہ ہے۔ قاسم دیر تک یہی سوچتا رہا۔ اسے ابوجعفر نے بتایا تھا کہ مارسی کو البانیہ بھیج دیا گیا ہے۔ قاسم نے سوچا کہ شاید ابو جعفر نے شدید اذیت کے ڈر سے مارسی کی شہادت کا ذکر نہ کیا ہوگا۔ قاسم دیر تک انتہائی دکھی دل کے ساتھ مارسی کی موت و حیات کے بارے میں سوچتا رہا۔ اب تو اسے بھی ایسے لگنے لگا تھا ۔ جیسے مارسی اس سے بہت دور چلی گئی ہو۔ اس کے گھر والے اس کے پاس آئے ۔ بیٹھے اسے دلاسہ دیا اور چلے گئے۔ اس کی ماں ، بھابھی اور بھائی سب آئے۔ لیکن اسے کسی کے آنے جانے کی خبر نہ ہوئی۔ وہ مارسی کی جدائی اورابوجعفر کے زندہ بچ جانے پر اپنے ہی دل کو نوچ نوچ کر کھاتا رہا۔ آج کی رات گزارنی اس کے لیے مشکل ہوگئی۔ وہ رات بھر جاگتا رہا۔ اور مارسی کے بارے میں ہی سوچتا رہا


 

No comments:

Post a Comment