عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا۔-----۔۔قسط نمبر41


اگلے دن اس نے آغاحسن کے ساتھ مل کر مارسی کے بارے میں نئی اطلاع پر گفتگو کی ۔ اب وہ چاہتا تھا کہ کسی عقلمند اور وفادار ساتھی کو البانیہ بھیج کر مارسی کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ اسے ایک موہوم سی امید تھی کہ ہوسکتا ہے مارسی زندہ ہو۔ اس نے اپنے دوست آغاحسن کو تمام کہانی سنائی۔ اور پھر اس کے مشورے سے ینی چری کے ایک وفادار سپاہی ’’ابراہیم‘‘ کو البانیہ کی جانب روانہ کرنے کا فیصلہ کیا ۔
چند دن بعد ابراہیم بھیس بدل کر البانیہ کے سفر پر روانہ ہوچکاتھا ۔ اس دوران قاسم کو سلطان سے ملنے کا اتفاق نہیں ہوا تھا ۔ لیکن آج جب اس نے یہ سنا کہ سلطان نے ایک مرتبہ پھر شہزادہ محمد کو تخت نشین کرکے گوشہ نشین اور زہدو عبادت کا فیصلہ کیا ہے۔ تو وہ سلطان سے ملنے کے لیے محل میں چلا آیا ۔ آج اس نے سوچ رکھا تھا کہ وہ شہزادہ محمد سے بھی ملاقات کرے گا۔ لیکن سب سے پہلے وہ سلطان کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ سلطان نے اسے جلد باریابی کی اجازت دے دی۔ قاسم جب سلطان کے کمرہ ء ملاقات میں داخل ہوا تو اسے سلطان کے نورانی چہرے پر ایک عارفانہ سی مسکراہٹ دکھائی دی ۔ اس نے انتہائی ادب کے ساتھ سلطان کی خدمت میں سلام عرض کیا ۔ اور خاموش کھڑا ہوگیا۔ سلطان نے قاسم کو سر سے پاؤں تک دیکھا اور مسکراتے ہوئے کہا
ہم تو سمجھ رہے تھے کہ قاسم بن ہشام ہمیں فراموش کرچکا ہے۔ لیکن تمہاری آمد بتاتی ہے کہ ہم ابھی تک بھی تمہیں یاد ہیں۔‘‘
سلطان کے لہجے میں چھپا پیار بھراطنز ، قاسم محسوس کیے بغیر نہ رہ سکا۔ اور اس نے انتہائی لجاجت کے ساتھ کہا:
نہیں سلطانِ معظم!! خدا میری زندگی میں وہ دن نہ لائے کہ میں آپ جیسے محسنِ انسانیت کو بھول جاؤں.میں دراصل ہر روز قدم بوسی کے لیے حاضر ہونا چاہتا تھا ۔ لیکن ہر بار بد نصیبی آڑے آتی رہی۔ آج سلطان معظم کی دوبارہ خلوت نشینی کا سنا تو بد نصیبی کو دھتکار کر حاضرِ خدمت ہوگیا 
بہت خوب ! دولتِ غم نے تمہیں حسنِ گفتگو سے مالا مال کردیا ہے۔‘‘
’’دولتِ غم؟؟ میں نالائق سلطان معظم کا حسنِ کنایہ سمجھ نہیں پایا۔‘‘
’’ہمارا مطلب ہے ۔ البانوی کنیز کی بیٹی مارسی کی گم شدگی نے تمہیں کافی مضمحل کردیا ہے۔ اسی کو ہم دولتِ غم کہہ رہے ہیں۔‘‘
سلطان کا اشارہ سن کر قاسم نے سر جھکالیا۔ اور سلطان دو قدم آگے بڑھا اس نے قاسم کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا۔
قاسم بن ہشام ! تم ہمارے بیٹوں جیسے ہو۔ یاد رکھو! ہم تمہاری طرف بے خبر نہیں ہیں۔ ہم نے محاذِ جنگ سے واپس لوٹتے ہی اپنے ایک خاص قاصد کو سکندر بیگ کی جانب روانہ کر دیا ہے۔ سکندر بیگ ہمارے ایلچی سے ذاتی طور پر واقف ہے۔ ہمیں امید ہے کہ وہ ہماری بات کو نہیں ٹھکرائے گا۔ کیونکہ ہم نے اسے اپنے بیٹوں سے بڑھ کر پیار اور محبت دیا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ اس نے بغاوت کی ہے۔ لیکن ہم اس کی بغاوت کو ایک لاڈلے بیٹے کی ضد سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے
لیکن سلطانِ معظم ! سکندر بیگ نے صرف بغاوت ہی نہیں کی ۔ اس نے اپنا مذہب بھی بدل لیا ہے۔ باالفاظِ دیگر وہ مرتد ہوچکا ہے۔
’’ہاں ! ہم یہ بھی جانتے ہیں۔ لیکن ہمیں یقین ہے کہ وہ ایک نہ ایک دن ہماری شفقتِ پدری کو یاد کر کے ضرور لوٹ آئے گا۔ ہم نے اس کو اپنی محبت کی کچھ نشانیاں بھی بھیجی ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ وہ البانوی کنیز کی بیٹی کو ہمارے احسانات کے بدلے میں واپس کردے گا۔‘‘
لیکن قاسم کو ذرا بھی یقین نہ تھا کہ سکندر بیگ سلطان کی بات مان کر مارسی کو واپس کردے گا ۔ اول تو اسے مارسی کے زندہ ہونے کا بھی یقین نہ تھا ۔ لیکن پھر بھی اس نے سلطان کا شکریہ ادا کیا ۔ اور کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد کہا
’سلطانِ معظم ! شہزادہ محمد ابھی کم عمر ہیں۔ اور سلطنت کے دشمن ہر وقت تاک میں بیٹھے ہیں۔ میں سلطانِ معظم کی خدمت میں اس لیے حاضر ہوا تھا کہ پاسبانِ ملت کی توجہ ینی چری کے سپاہیوں کی طرف مبذول کراؤں۔ جو گزشتہ کئی دنوں سے پھر تنخواہوں کی کمی کا تذکرہ لے بیٹھے ہیں۔ سلطانِ معظم ! مجھے تو یوں لگتا ہے کہ ادرنہ میں پھر کوئی سازش پروان چڑھ چکی ہے۔اور خصوصاً قیصر قسطنطنیہ نے اس سازش کا جال بھی سلطانِ معظم کی غیر موجودگی میں پھیلانے کی کوشش کی ہے۔‘‘
قاسم نے سلطان کی خلوت نشینی سے پیدا ہونے والے خدشات کا ذکر اور تازہ ترین حالات کی تفصیل سلطان کے سامنے پیش کردی۔لیکن اس مرتبہ سلطان نے چونکنے کی بجائے مسکراتے ہوئے جواب دیا
تم فکر مت کرو۔ ہمیں تنخواہوں کے مطالبات کی اطلاع مل چکی ہے۔ اور ہم نے ینی چری کے سپاہیوں کی تنخواہیں بڑھانے کا حکم بھی جاری کر دیا ہے۔ لیکن پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ یہ مطالبات کسی سازش کے نتیجے میں سامنے نہیں آئے۔ بلکہ ایک مدت سے سپاہیوں کے اسی مطالبہ کی ہمیں اطلاع دی جاتی رہی ہے۔
لیکن سلطان کی تسلی سے سلطان خود مطمئن ہو تو ہو ۔ قاسم مطمئن نہیں تھا ۔ اسے یوں لگتا تھا جیسے قیصر کے جاسوس ابھی تک ادرنہ میں چھپے ہوئے ہیں۔ وہ کچھ اور دیر بھی سلطان کے پاس رہا ۔ اس دوران سلطان نے اسے بتایا کہ وہ ایک بار پھر ایدین کی فضاؤں میں اپنے معمولات میں مشغول ہونے کے لیے جارہا ہے۔ یہ سلطان کا فیصلہ تھا ۔ اور قاسم اسے روکنے کے لیے کچھ نہ کرسکتا تھا ۔ چنانچہ وہ چپ رہا ۔ واپسی پر قاسم ، شہزادہ محمد سے بھی ملا۔ اور باقی کا تمام دن وہ تقریباً ایک ساتھ رہے۔ چند دن بعد سلطان ’’ایدین ‘‘ کی خانقاہ میں جا چکا تھا ۔ اور شہزادہ محمد ایک مرتبہ پھر سلطان محمد خان بن کر تختِ حکومت پر جلوہ افروز تھا ۔ ادرنہ میں خوب چہل پہل تھی۔ نئے سلطان کی تخت نشینی کے موقع پر جشنِ تاج پوشی کا بھی اہتمام کیا گیا تھا ۔ گزشتہ فتوحات نے سلطنتِ عثمانیہ کے باشندوں کو پھر سے باغ وبہار کردیا تھا ۔ ادرنہ کی گلیاں اور بازار خوب سجے ہوئے تھے ۔ دور دراز کے مسافر اور سوداگر اپنا اپنا مال و متاع لیے ادرنہ پہنچ آئے تھے۔ روزانہ علی الصبح جب شہر کے دروازے کھلتے تو سوداگروں اور مسافروں کا تانتا بندھ جاتا ۔ جانے والوں سے زیادہ تعداد آنے والوں کی ہوتی۔ دروازے کے سپاہی دن بھر رنگا رنگ کے لوگوں کو دیکھتے ۔ قاسم بھی روزانہ علی الصبح ینی چری کے معسکر جانے کے لیے فصیل کے دروازے سے گزرتا ۔ ایک روز وہ اپنے وقت پر اسی دروازے سے گزر رہا تھا کہ اس کی نظر یورپ کی جانب سے آنے والے ایک قافلے پر پڑی۔قافلہ نہ بہت بڑا تھا اور نہ چھوٹا........یہ قافلہ بھی سوداگروں کا ہی معلوم ہوتا تھا ۔ فصیل سے باہر سامان سے لدے اونٹ قطار میں بیٹھے تھے اور قافلے میں شامل مرد و خواتین نیچے زمین پر جگہ جگہ چٹائیاں بچھاکر کھانے پینے میں مشغول تھے۔ قاسم نے قافلے کے قریب سے گزرتے ہوئے ازراہِ معلومات ایک سوداگر سے پوچھا
بھائی صاحب! یہ قافلہ کس ملک سے آیا ہے؟
ہمارا قافلہ سربیا کی سرحدات سے آیا ہے۔
قاسم نے رکے بغیر سوال کیا تھا ۔ اور پھر اپنے گھوڑے کی لگامیں ڈھیلی چھوڑ دیں تھیں۔ لیکن سربیائی سرحدات کا ذکر سنتے ہی نہ جانے کیوں اس کے ذہن میں بوسنیائی شہزادی کی تصویر گھومنے لگی
 

No comments:

Post a Comment