اللہ والوں کے قصّے۔۔۔قسط نمبر 35.

حضرت شیخ ابراہیم خواصؒ فرماتے ہیں۔ ’’ میں ایک مرتبہ جنگل میں گیا۔ ایک نصرانی نظر آیا جو کمر میں زنار باندھے ہوئے تھا۔ اس نے میرے ساتھ رہنا چاہا۔ میں نے اُس کی بات مان لی۔ پھر ہم سات دنوں تک برابر ایک دوسرے کے ساتھ رہے۔ آٹھویں دن نصرانی نے مجھ سے کہا۔ 
’’ اے دین حقیقی کے عابد کچھ کرامات دکھلاؤ، ہم بھوکے ہیں۔‘‘ 
اس پر میں نے خدا سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا۔ ’’ اے بار تعالیٰ ! اس کا فرکے روبرو میری عزت رکھیو
پھر میں نے دیکھا کہ ایک طباق جس میں روٹی گوشت ، تازہ کھجور اور پانی رکھا ہے۔ ہم دونوں کے سامنے آیا۔ ہم دونوں نے کھایا پیا ۔ اس کے بعد سات دنوں تک چلتے رہے پھر میں نے نصرانی سے کہا۔ ’’ اے عابد نصرانی ! کچھ تم بھی کرامات دکھاؤ اب تمہاری باری ہے۔ ‘‘ 
اس نے عصا پر تکیہ لگا کر دعا کی ۔ دعا کے فوراً بعد دوطباق ہمارے سامنے آئے ان دونوں میں میرے طباق سے دو گنا کھانا تھا۔ مجھ کو یہ دیکھ کر سخت حیرت ہوئی اور اس سے میری حالت بھی بدل گئی
اس کے پیہم اصرار پر میں نے کھانا نہیں کھایا۔ پھر اُس نے مجھ سے کہا کہ آپ کھائیے میں آپ کو دو بشارتیں دیتا ہوں۔ ایک ان میں کلمہ شہادت ہے اشھدان لآ الٰہ الا اللہ واشھدان محمد رالرسول اللہ۔کلمہ پڑھنے کے بعد اس نے زنار اتار کر پھینک دیا۔ دوسری بشارت یہ ہے کہ میں نے اللہ تعالیٰ کے روبرو دعا کی اے خداوندا ! اگر اس بندے کے واسطے تیرے پاس کچھ حصہ ہے تو ہم پر اپنے فضل و کرم کا دروازہ کھول دے۔ ‘‘ 
شیخ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد ہم دونوں نے کھایا پیا اور چل دیئے اور حج سے فارغ ہو کر ایک سال مکہ معظمہ میں قیام کیا۔ وہ عابد وہاں مر گیا اور لطحا میں دفن ہوا۔ 
حضرت احمد حربؒ کی والدہ محترمہ نے ایک دن پالتو مرغ پکا کر آپ سے کھانے کے لیے کہا تو آپ نے فرمایا کہ اس مرغ نے ایک مرتبہ ہمسایہ کی چھت پر جا کر چند دانے کھا لیے تھے۔ اس لیے میں اس کا گوشت نہیں کھا سکتا ، چنانچہ آپ نے وہ گوشت نہ کھایا۔ 
ایک مرتبہ حجام آپ کا خط بنا رہا تھا اور آپ ذکر الٰہی میں مصروف تھے ۔ حجام نے عرض کیا’’ کچھ دیر کے لیے ذکر الٰہی سے ٹھہر جائیے۔ ‘‘ 
آپ نے فرمایا ۔ ’’ تم اپنا کام کرو ، میں اپنا کام کررہا ہوں ، اور اس حالت میں کئی جگہ سے آپ کا لب کٹ گیا لیکن آپ نے ذکر الٰہی نہ چھوڑا۔
شیخ ابو بکر کتابی ؒ فرماتے ہیں۔ موسمِ حج میں مکہ معظمہ کے مقام پر مسئلہ محبت صوفیائے کرامؒ کے درمیان پیش ہوا۔ مشائخ نے اس مسئلہ میں گفتگو کی ۔ حضرت جنیدؒ اُن سب میں کم سن تھے۔ سب نے ان سے کہا۔ ’’ کچھ تم بھی بیان کرو۔ جو تمہارے نزدیک حق ہو ظاہر کرو۔‘‘ 
حضرت جنیدؒ نے اپنا سر جھکایا اور آنسو ان کے جاری ہوگئے پھر کہا۔ ’’ محب وہ بندہ ہے جو اپنی خودی سے جاتا رہا ۔ خدا کے ذکر سے ملا ہو، اس کے حق ادا کرتا ہو خدا کی طرف دل سے دیکھتا ہو۔ اُس کے دل کو انوارِ ہیت نے جلا دیا ہو ، اس کے لیے صاف شراب خدا کی محبت کا پیالہ ہوا۔ خدا وند عالم الغیب کے پردوں سے اُس کے واسطے ظاہر ہوگیا ہو۔ اگر کلام کرے تو اللہ کے ساتھ ۔ یعنی خدا اس کی زبان ہے۔ اگر بولے تو اللہ ہی سے ۔ اگر حرکت کرے تو خدا ہی کے حکم سے۔ اگر تسکین پائے تو خدا ہی کے ساتھ۔ وہ اللہ کے ساتھ ہے اور اللہ کے واسطے اور اللہ ے ہمراہ۔ ‘‘ تمام مشائخ رونے لگے اور کہا۔ ’’ اس سے زیادہ اور کوئی کیا بیان کرے گا۔ اے تاج العارفین ! خدا تجھ کو اور زیادہ عقل و دانائی عطا فرمائے


 

No comments:

Post a Comment