اللہ والوں کے قصّے۔۔۔قسط نمبر 36.

ایک بزرگ فرماتے ہیں۔ میں نے حضرت سمنونؒ کو طواف میں دیکھا اور وہ لچک کر خوش خوش چلتے تھے۔
میں نے کہا۔ ’’ شیخ ! تم کو خداوند عالم کے روبرو کھڑے ہونے کی قسم ہے ۔ مجھ کر خبر دو کس بات سے تم واصل الی اللہ ہوئے۔ 
یہ سنا تو بے ہوش ہو کر گر پڑے ۔ جب ہوش آیا تو کہا۔ ’’ اے بھائی میں نے اپنے نفس پر پانچ خصلتیں لازم کرلی ہیں۔ پہلی خصلت یہ ہے کہ جو کچھ مجھ میں (اپنے خواہش نفس سے ) زندہ تھا اُسے مار ڈالا اور جو چیز مجھ میں مردہ تھی اور وہ میرا دل ہے۔ زندہ کیا۔ دوسرے جو میری نظروں سے غائب تھا۔ اس کو روبرو جانا۔ یعنی آخر کا حصہ اس کو باقی رہنے والا سمجھا اور جو میرے روبرو حاضر تھا۔ اس کو غائب تصور کیا۔ یعنی دنیوی عیش کو فانی جان کر اس سے ملتفت نہ ہوا۔ تیسرے جو چیز میرے نزدیک فانی تھی (یعنی تقویٰ خوف خدا ) اس کو باقی رکھا جو میرے نزدیک باقی تھے ( یعنی خواہش نفس ) اس کو فنا کر دیا۔ چوتھے جس چیز سے لوگ وحشت کرتے ہیں۔ میں نے اس سے اُنس و محبت کی ‘‘ یہ کہہ کر حضرت سمنونؒ چلے گئے۔
ایک دن حضرت ابو القاسمؒ نصر آبادی نے ایک یہودی سے سوال کیا کہ میں نے خربوزہ خریدنا ہے اس لیے نصف رقم دے دو۔
لیکن یہودی نے آپ کو جھڑک دیا۔ اس کے باوجود آپ نے تین چار مرتبہ یہودی کے پاس جاکر اپنا سوال دوہرایا۔ جب آخری بار آپ نے سوال کیا تو اس نے کہا۔ ’’ تم عجیب قسم کے انسان ہو ۔ اتنی مرتبہ منع کردینے کے باوجود بھی اپنے سوال سے باز نہیں آئے۔ ‘‘
آپ نے فرمایا۔ ’’ اگر فقیر لوگ اتنی سی بات پر خوفزدہ ہو جائیں تو اس کو اعلیٰ مدارج کیسے حاصل ہوسکتے ہیں۔
یہودی آپ کا یہ قول سن کر اسی وقت دل سے مسلمان ہوگیا۔
حضرت ذوالنون مصری ؒ فرماتے ہیں کہ میری تیس برس کی ہدایت کا نتیجہ صرف اتنا نکلا کہ ایک شہزادہ صحیح معنوں میں ہدایت یافتہ ہوسکا اور وہ اس طرح کہ ایک دفعہ وہ میری سجد کے سامنے سے گزر رہا تھا تو میں اس وقت یہ جملہ کہہ رہا تھا’’ کمزور کا طاقتور سے جنگ کرنا نہایت احمقانہ فعل ہے۔
یہ سن کر شہزادے نے مجھ سے پوچھا۔ ’’ میں آپ کے جملے کا مفہوم نہیں سمجھا۔ ‘‘ میں نے اس سے کہا ۔ ’’ اس سے زیادہ احمق کون ہوسکتا ہے جو خدا سے جنگ کرے۔ ‘‘ یہ سن کر وہ چلا گیا۔ پھر اس نے دوسرے دن آکر مجھ سے پوچھا ’’ وصالِ خداوندی کے لیے کون سی راہ اختیار کی جائے۔ 
میں نے کہا۔ ’’دو (2) راہیں ہیں۔ ایک چھوٹی اور دوسری طویل ۔ چھوٹی تو یہ ہے کہ خواہشات دنیا اور معصیت کو چھوڑ دے اور طویل راہ یہ ہے کہ خدا سوا سب سے کنارہ کش ہوجائے۔ 
اُس نے عرض کیا۔ ’’ میں یہی طویل راہ اختیار کر رہا ہوں۔ ‘‘ اس کے بعد وہی شہزادہ اپنی عبادت اور ریاصت سے ابدالوں کے مقام پر پہنچ گیا۔
بغداد کے فرقہ متعزلہ نے ہنگامہ کھڑا کر کے یہ چاہا کہ حضرت امام احمد بن جنبلؒ کسی طرح یہ تسلیم کرلین کہ قرآن مخلوق ہے اور اس سلسلہ میں دربار خلافت سے ایسے لوگوں کو بہت کڑی سزا میں بھی دی گئیں جوقرآن کو مخلوق تسلیم نہیں کرتے تھے چنانچہ آپ کو بھی سزاد ی گئی اور جس وقت آپ کو ایک ہزار کوڑے لگائے جا رہے تھے تو اتفاق سے آپ کا کمر بند کھل گیا لیکن غائب سے دو ہاتھ نمودار ہوئے اور آپ کا کمر بند باندھ کر غائب ہوگئے مگر اتنی شدید سزاؤں کے باوجود آپ نے قرآن کو مخلوق تسلیم نہیں کیا اور جب آپ چھوڑ دیئے گئے تو لوگوں نے پوچھا ’’جن فتنہ پردازوں نے آپ کو اتنی اذیتیں پہنچائی ہیں۔ اُن کے لیے آپ کی کیا رائے ۔ ‘‘ آپ نے فرمایا۔ ’’ وہ مجھے اپنے خیال کے مطابق گمراہ تصور کرتے ہیں اس لیے تمام تکلیفیں صرف خدا کے لیے دی گئی ہیں۔ اس لیے میں قیامت کے روز ان سے کوئی مواخذہ نہیں کروں گا۔
حضرت بشرحانی ؒ کا قول ہے کہ ’’ امام احمد بن حنبلؒ مجھ سے بدر جہا افضل ہیں کیونکہ میں تو صرف اپنے ہی واسطے رزق حلال کی کوشش کرتا ہوں لیکن وہ اپنے اہل و عیال کے لیے بھی حلال رزق حاصل کرتے ہیں۔ ‘‘


 

No comments:

Post a Comment