اللہ والوں کے قصّے۔۔۔قسط نمبر 38.


 

حضرت عبداللہ بن مبارک ؒ کے پاس ایک ایسا ملازم تھا جس سے آپ نے یہ معاملہ طے کیا کہ اگر تم محنت مزدوری کر کے اتنی رقم مجھے دے دو تو میں تم کو آزاد کردوں گا۔ ایک دن کسی نے آپ سے کہہ دیا کہ آپ کا غلام تازہ قبروں سے کفن چرا کر اور بازار میں فروخت کر کے آپ کی رقم ادا کرتا ہے۔
یہ سن کر آپ کو بے حد ملال ہوا۔ پھر ایک رات چپکے سے غلام کے پیچھے پیچھے قبرستان میں جا پہنچے۔ قبرستان میں پہنچ کر غلام نے ایک قبر کھودی اور نماز میں مشغول ہوگیا اور جب آپ نے قریب سے دیکھا تو غلام معلوم ہوا کہ وہ ٹاٹ کے کپڑے پہنے اور اپنے گلے میں طوق پہنے ہوئے گریہ وزاری کر رہا ہے۔ آپ یہ دیکھ کر اپنے آپ میں رو پڑے۔ آپ نے پوری رات باہر اور غلام نے قبر میں عبادت کرنے میں گزار دی۔ پھر صبح کو غلام نے قبر کو بند کیا اور فجر کی نماز مسجد میں جا کر ادا کی اور یہ دعا کرتا رہا۔
’’ اے اللہ ! اب رات گزر چکی ہے اور میرا آقا اب رقم طلب کرے گا لہٰذا اپنے کرم سے تو ہی کچھ انتظام فرما دے۔ ‘‘
اس دعا کے بعد ایک نور نمودار ہوا اور اس نے درہم کی شکل اختیار کرلی۔
حضرت عبداللہ بن مبارکؒ یہ واقعہ دیکھ کر غلام کے قدموں میں گر پڑے اور فرمایا۔ ’’ کاش تو آقا اور میں غلام ہوتا۔ ‘‘
یہ جملہ سن کر غلام نے پھر دُعا کی۔ ’’ اے اللہ ! اب میرا راز فاش ہوگیا ہے اس لیے اب مجھے دنیا سے اُٹھالے۔ ‘‘
اتنا کہنے کے ساتھ ہی غلام نے آپ کی آغوش میں دم توڑ دیا۔
حضرت سفیان ثوریؒ نے حضرت حاتم ؒ سے فرمایا۔ ’’ میں تمہیں اُن چار چیزوں سے آگاہ کرتا ہوں۔ جن کو عوام نے غفلت کی بنا پر فراموش کر دیا۔ اول یہ کہ لوگوں پر اتہام لگا کر ان کو برا بھلا کہنا۔ احکام خداوندی سے غافل بنا دیتا ہے‘‘
دوم کسی مومن کے عروج پر حسد کرنا۔ ناشکری کا پیش خیمہ ہے۔
سوم ناجائز دولت جمع کرنے سے انسان آخرت کو بھول جاتا ہے۔
چہارم خداوند تعالیٰ کی وعید پر خوفزدہ نہ ہونے اور ان وعدوں پر اظہارِ مایوسی کرنے سے کفر عائد ہوجاتا ہے اور یہ سب چیزیں انتہائی بری ہیں۔
ایک مرتبہ عمرو لیث ایسا بیمار ہوا کہ تمام حکیموں نے جواب دے دیا۔ اس پر اس نے حضرت سہل بن عبداللہ ؒ تستری کو اپنے پاس بلا کر دعا کی درخواست کی۔ آپ نے فرمایا۔ ’’ دعا اسی کے حق میں اثر انداز ہوتی ہے۔ جو تائب ہوچکا ہو۔ لہٰذا پہلے تم توبہ کر کے قیدیوں کو رہا کرو۔ ‘‘
اس پر عمرولیث نے آپ کے حکم کی تعمیل کی ۔ آپ نے دعا کی۔ ’’ اے اللہ ! جس طرح تونے اپنی نافرمانی کی ذلت اس کو عطا کی۔ اسی طرح میری عبادت کی عظمت بھی اس کو دکھا دے۔
آپ کی اس دعا پر عمرولیث تندرست ہوگیا۔ پھر اس نے بہت سی دولت آپ کو پیش کرنا چاہی لیکن آپ نے دولت لینے سے انکار کر دیا۔ واپسی پر ایک مرید نے آپ سے عرض کیا۔ ’’ اگر آپ نذرانہ قبول کر لیتے تو میں قرض سے سبکدوش ہوجاتا۔ ‘‘
آپ نے فرمایا۔ ’’اگر تجھے زردیکھنا ہے تو سامنے دیکھ۔ ‘‘
اس پر جب مرید نے نظر اُٹھا کر دیکھا تو اُسے چاروں طرف سونا ہی سونا دکھائی دیا۔ آپ نے فرمایا۔ ’’ خدا نے جس کو یہ مرتبہ عطا کیا ہو۔ اس کو دولت کی تمنا کیسے ہوسکتی ہے
حضرت حنیفہ بغدادیؒ کو اپنے ایک مرید سے اُس کے مودّب ہونے کی وجہ سے بہت اُنس تھا مگر دوسرے مریدوں کو اس اُنسیت پر رشک پیدا ہوگیا۔ چنانچہ آپ نے ہر مرید کو ایک مرغ اور ایک چاقو دے کہ یہ حکم دیا کہ ان کو ایسی جگہ جا کر ذبح کرو کہ کوئی نہ دیکھ سکے۔ کچھ دیر کے بعد تمام مریدین تو ذبح شدہ مرغ لے کر حاضر ہوگئے لیکن وہ مرید جس سے آپ کو اُنس تھا زندہ مرغ لیے ہوئے آیا اور عرض کیا۔ ’’ مجھے کوئی جگہ ایسی نہیں ملی جہاں خدا موجود نہیں تھا۔ ‘‘یہ کیفیت دیکھ کر تمام مریدین اپنے رشک سے تائب ہوگئے۔
ایک مرتبہ خلیفہ ہاروں الرشید کے لیے مکہ معظمہ گئے اور وہاں چند روز قیام کرنے کے بعد کوچ کا حکم دیا۔ چنانچہ سب لوگوں نے کوچ کیا۔ حضرت بہلول مجنوںؒ بھی لوگوں کے ساتھ نکل کھڑے ہوئے۔ لڑکوں نے حضرت بہلولؒ کا مذاق اُرانا شروع کردیا۔ وہ دوسروں سے بھی کہتے کہ اس دیوانے کو خوب تنگ کرو۔ اسی اثناء میں خلیفہ ہارون الرشید کی سواری نزدیک آگئی جس پر تمام بچے بھاگ گئے جب ہارون الرشید کی سواری حضرت بہلولؒ کے نزدیک پہنچی تو انہوں نے خلیفہ کو باآواز بلند پکارتے ہوئے کہا۔ ’’ اے امیر المومنین ! اے امیر المومنین!‘‘
ہارون الرشید نے پردہ اُٹھا کر جواب دیا۔ ’’ لبیک اے مجنوں ! کیا کہتے ہو؟‘‘
بہلول نے فرمایا۔ ’’ اے امیرالمومنین ! ہم سے ایمن بن مائل نے قدامہ بن عبداللہ عامری سے روایت کیا ہے کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو مقام منیٰ میں ایک ایسے اونٹ پر سوار دیکھا کہ اس پر نہایت گھٹیا قسم کا کجاوہ تھا اور کوئی بھی حضورؐ کی سواری کے اردگرد لوگوں کو نہیں ہٹاتا تھا ۔ نہ کوئی کسی سے مار دھاڑ کرتا تھا۔ پس اے امیر المومنین ! اس سفر میں تیرا تواضع اور پستی اختیار کرنا اس تکبر اور بڑائی سے بہتر ہے۔ ‘‘
ہارون الرشید یہ سن کر رونے لگا اور اس قدر دیا کہ آنسو زمین پر گرنے لگے پھر بہلول سے کہا۔ ’’ اے بہلول ! ہمیں کچھ اور نصیحت کی باتیں سنا۔‘‘
حضرت بہلولؒ نے یہ اشعار پڑھے جن کر ترجمہ یہ ہے۔’’ یہ مان لے کہ تو ساری زمین کا مالک ہوا اور یہ بھی مان لے کہ تمام عالم تیرا مطیع ہوگیا لیکن اگر یہ سب کچھ ہوگیا تو پھرکیا نفع۔ کل تیرا ٹھکانہ قبر کے اندر ہوگا اور وہ تیرے اوپر مٹی ڈالتا ہوگا۔ ‘‘
ہارون الرشید یہ سن کر بہت رویا اور کہا۔ ’’ بہلول تم نے خوب بات کہی۔ کچھ اور کہو۔ ‘‘ بہلول نے کہا۔ ’’ اے امیر المومنین ! جن شخص کو اللہ تعالیٰ نے مال اور جمال عطا فرمایا ہو اور اس نے اپنے مال کو اللہ کی راہ میں خرچ کیا اپنے جمال کو حرام سے بچایا وہ حق تعالیٰ کے دفتر میں اللہ کے مقبول بندوں کی فہرست میں شامل ہوگا۔‘‘
ہارون الرشید نے کہا ۔ ’’ بہلولؒ ! تم نے خوب کہا اور انعام کے بھی مستحق ہوئے‘‘۔ بہلول نے کہا۔ ’’ بہلول ! اگر تمہارے ذمے کوئی قرض ہو تو کہو میں ادا کروں‘‘۔ بہلولؒ نے فرمایا۔ ’’ میں دین کے بدلے دنیانہیں چاہتا۔ اہل حق کو ان کا حق دے اور اپنے نفس کا قرض ادا کر۔ ‘‘
پھر ہارون الرشید نے کہا۔ ’’ اگر رائے ہو تو کچھ وظیفہ مقرر کر دیا جائے۔ ‘‘
بہلولؒ نے یہ سن کر آسمان کی جانب دیکھا پھر فرمایا۔ ’’ امیر المومنین ! میں اور تودونوں اللہ کے بندے ہیں پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تجھے یار رکھے اور مجھے بھول جائے۔ ‘‘ ہارون الرشید نے یہ سن کر پردہ چھوڑ دیا اور سواری آگے بڑھ گئی۔

No comments:

Post a Comment