سب سے بااختیار شہزادی.


 











مغل بادشاہ شاہ جہاں اپنی سب سے بڑی بیٹی جہاں آرا کے ساتھ شطرنج کھیل رہے تھے کہ ان کی اہلیہ ممتاز محل کے کمرے سے ایک ہرکارہ دوڑتا ہوا آيا اور خبر دی کہ ملکہ ممتاز محل کی حالت نازک ہے۔

جہاں آرا دوڑتی ہوئی اپنی ماں کے پاس گئیں اور انھی قدموں سے لوٹ کر اپنے والد کو خبر دی کہ والدہ کا درد زہ برداشت سے باہر ہے اور بچہ ان کے پیٹ سے نکل نہیں پا رہا ہے۔

شاہ جہاں نے اپنے دوست حکیم عالم الدین وزیر خاں کو طلب کیا لیکن وہ بھی ممتاز محل کی تکلیف کو کم کرنے میں ناکام رہے۔

معروف مورخ جادو ناتھ سرکار نے اپنی کتاب 'سٹڈیز ان مغل انڈیا' میں شاعر قاسم علی آفریدی کے حوالے سے لکھا: 'اپنی ماں کی مدد کرنے میں بےبسی محسوس کرنے والی جہاں آرا نے غریبوں میں زرو جواہرات اس امید پر تقسیم کروائے کہ خدا ان کی دعاؤں سے ان کی والدہ کو صحت دے دے۔ دوسری جانب شاہ جہاں بھی غم سے نڈھال تھے۔‘

اسی کسمپرسی کی حالت میں ممتاز محل کی کوکھ کے اندر ہی بچے کے رونے کی آواز سنائی دی



انھوں نے لکھا: 'یہ عام خیال ہے کہ اگر بچہ پیٹ میں ہی رونے لگتا ہے، تو ماں کا بچنا محال ہوجاتا ہے۔ ممتاز محل نے شاہ جہاں کو اپنے پاس بلا کر اپنے قصوروں کی معافی مانگی اور اپنی ایک خواہش کا اظہار کیا۔ اگر ممکن ہو تو اسے پورا کرنے کی کوشش کریں۔ بادشاہ نے قسم کھائی ہے کہ آپ کی ہر خواہش پوری ہوگی۔ ممتاز محل نے کہا کہ میری موت کے بعد آپ ایک ایسا مقبرہ تعمیر کروائیں جو اس دنیا میں ابھی تک تعمیر نہیں کیا گیا ہے۔‘

جادو ناتھ نے لکھا: 'اس کے فورا بعد انھوں نے گوہرآرا کو جنم دیا اور خود ابدی نیند سو گئیں

بہت سے مورخین نے بعد میں ذکر کیا کہ شاہ جہاں اس صدمے سے کبھی نہیں نکل پائے۔ زیڈ اے ڈیسائی نے 'شاہ جہاں نامہ آف عنایت خان' میں لکھا ہے کہ 'شاہ جہاں نے موسیقی چھوڑ دی اور سفید کپڑے پہننے لگے۔ مسلسل رونے کی وجہ سے، ان کی آنکھیں کمزور ہو گئیں اور وہ عینک پہننے لگے۔ پہلے جب ان کا ایک بھی بال سفید ہوتا تھا تو وہ اسے اكھڑوا دیتے تھے، لیکن ممتاز کے مرنے کے ایک ہفتے کے اندر ان کی داڑھی اور بال سفید ہو گئے



اس کے بعد شاہ جہاں کا اپنی سب سے بڑی بیٹی جہاں آرا اور بیٹے دارالشکوہ پر انحصار بڑھ گیا۔ جہاں آرا دو اپریل، 1614 کو پیدا ہوئی تھیں۔ ایک درباری کی اہلیہ ہری خانم بیگم نے انھیں شاہی طور طریقہ سکھایا۔ جہاں آرا بلا کی حسین ہونے کے ساتھ بڑی عالم فاضل بھی تھیں۔ انھوں نے فارسی زبان میں دو کتابیں تحریر کی ہیں۔

1648 میں آباد ہونے والے نئے شہر شاہجہان آباد کی 19 عمارتوں میں سے پانچ ان کی نگرانی میں تعمیر کی گئی تھیں۔ سورت کی بندرگاہ کی پوری آمدنی ان کے حصے میں آتی تھی۔ اس کا اپنا 'صاحبی' نامی جہاز تھا جو ڈچ اور انگریزوں کے ساتھ تجارت کرنے کے لیے سات سمندر پار جاتا تھا۔

مشہور مؤرخ اور 'ڈاٹرز آف دی سن' کی مصنفہ ارا مكھوتي بتاتی ہیں کہ 'جب میں نے مغل خواتین پر تحقیق شروع کی تو پایا کہ شاہجہان آباد جسے ہم آج پرانی دہلی کہتے ہیں کا نقشہ جہاں آرا بیگم نے اپنی نگرانی میں بنوایا تھا۔ اس وقت سب سے خوبصورت بازار چاندنی چوک بھی انھی کی دین ہے۔ وہ دہلی میں اس وقت کی سب سے اہم خاتون تھیں۔ ان کی بہت قدر و منزلت تھی اور وہ بہت ہی زیرک بھی تھیں۔

دارالشکوہ اور اورنگزیب میں دشمنی تھی۔ جہاں آرا نے دارالشکوہ کا ساتھ دیا۔ لیکن اورنگزیب جب بادشاہ بنے تو انھوں نے جہاں آرا کو ہی بادشاہ بیگم بنایا۔ بادشاہ بیگم کا خطاب مغل سلطنت کی سب سے مؤثر خاتون کو دیا جاتا تھا۔ یہ پہلے نور جہاں کے نام تھا۔

جہاں آرا کا شمار مغل عہد کی سب سے تہذیب یافتہ خواتین میں ہوتا ہے۔ ان کی سالانہ آمدنی اس وقت 30 لاکھ روپے تھی آج کے دور میں، اس کی قیمت دو سے تین ارب روپے کہی جا سکتی ہے

مغل دور کی رعایا بھی ان پر اپنی جان چھڑکتی تھی۔ ایک اور مورخ رعنا صفوی کہتی ہیں: ہم یہ نہیں کہیں گے کہ وہ شہزادی تھیں، یا شاہ جہاں کی بیٹی یا اورنگ زیب کی بہن تھیں۔ وہ اپنے آپ میں ایک مکمل شخصیت تھیں۔ جب وہ صرف 17 سال کی تھیں تو ان کی ماں کا انتقال ہو گیا اور انھیں پادشاہ بیگم بنایا گیا جو اس زمانے میں کسی عورت کے لیے سب سے بڑا عہدہ تھا۔ جب وہ پادشاه بیگم بنتی ہیں تو وہ اپنے یتیم بھائی بہنوں کی دیکھ بھال تو کرتی ہی تھیں اپنے باپ کو بھی سہارا دیتی تھیں جو اپنی اہلیہ کے انتقال کے بعد بہت غم زدہ تھے



1644 میں جہاں آرا کے ساتھ ایک بہت بڑا حادثہ پیش آیا۔ جب وہ قلعہ کے اندر چہل قدمی کر رہی تھیں تو راہداری میں روشن ایک مشعل سے ان کے جامے میں آگ لگ گئی اور 11 ماہ تک انھیں بستر پر رہنا پڑا۔

مغل دور کی کئی کہانیوں کا تفصیلی مطالعہ کرنے والے آصف خاں دہلوی کہتے ہیں: وہ جہاں آرا کی سالگرہ کا موقع تھا۔ وہ ریشمی لباس میں تھیں۔جب وہ اپنے خادموں کے ساتھ باہر آئيں تو ایک شمع ان سے رشک کرنے لگی اور جامے کا بوسہ لے لیا۔ اس طرح شہزادی کے لباس میں آگ لگ گئی

'خادموں نے ان پر کمبل پھینک کر آگ بجھائی۔ وہ بری طرح جل گئیں اور ان کی حالت بہت نازک ہوگئی۔ متھرا سے راکھ لائی گئی جس سے انھیں آرام تو آیا لیکن پھر زخم ابھر آتا۔ پھر ایک نجومی نے بتایا کہ جہاں آرا بیگم کو کسی کی معافی کی ضرورت ہے، کیونکہ انھیں کسی کی بدعا لگی ہے۔ خادموں سے پوچھا گیا کہ جہاں آرا نے حال ہی میں کسی کو کوئی سزا تو نہیں دی ہے؟ یہ پتہ چلا کہ ایک فوجی ان کی ایک خادمہ پر ڈورے ڈال رہا تھا تو انھوں نے ہاتھیوں کے پاؤں کے نیچے اسے کچلوا دیا تھا۔ سپاہی کے خاندان کو طلب کیا گیا تھا اور ان سے معافی نامہ لکھوایا گیا اور انھیں پیسے دیے گئے پھر جہاں آرا کا مرض جاتا رہا۔ اس کے بعد شاہ جہاں نے اپنے خزانے کے دروازے کھول دیے۔

ان سے ہر اہم معاملے میں مشورہ لیا جاتا۔ اس زمانے میں انڈیا آنے والے مغربی مؤرخوں نے 'بازار افواہ' کا ذکر کیا ہے جس میں شاہ جہاں کے ان سے ناجائز تعلقات تھے۔

ایرا مکھوتی کہتی ہیں کہ 'جب یہ مغربی سیاح ہندوستان آتے تو انھیں یہ دیکھ کر تعجب ہوتا کہ مغل بیگمات کس قدر بااثر تھیں۔ اس کے برعکس اس زمانے میں برطانوی خواتین کو اس قسم کے حقوق حاصل نہیں تھے۔ وہ اس بات پر حیران تھے کہ بیگمات کاروبار کر رہی ہیں اور وہ انھیں ہدایت دے رہی ہیں کہ کس چیز کا کاروبار کرناہے اور کس چیز کا نہیں۔ اس کا سبب ان کی نظر میں شاہجہاں کے ساتھ غلط تعلقات ہیں۔ انھوں نے یہ بھی لکھا کہ شاہجہاں کی بیٹی بہت خوبصورت ہے جبکہ میرے خیال میں انھیں شاید ہی کبھی جہاں آرا کو دیکھنے کا موقع ملا ہو

فرانسیسی مؤرخ فرانسوا برنیر نے اپنی کتاب 'ٹریولز ان دا مغل امپائر' میں لکھا: 'جہاں آرا بہت خوبصورت ہیں اور شاہ جہاں انھیں بے پناہ چاہتے ہیں۔ جہاں آرا اپنے والد کا اتنا خیال رکھتی تھیں کہ دسترخوان پر کوئی ایسا کھانا نہیں ہوتا جو ان کی نگرانی میں نہ بنا ہو۔

برنیئر نے لکھا: اس زمانے میں ہر جگہ ان کے ناجائز تعلقات کے چرچے تھے۔ بعض درباری تو یہ کہتے سنے جاتے کہ بادشاہ کو اس درخت سے پھل توڑنے کا حق ہے جسے انھوں نے خود لگایا ہو۔ دوسری جانب معروف تاریخ داں منوچی اسے سختی کے ساتھ مسترد کرتے ہوئے برنیئر کے خیال کو محض ذہن کی اڑان کہتے ہیں۔ اس کے ساتھ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ جہاں آرا کے بہت سے چاہنے والے تھے جو ان سے ملاقات کے لیے آتے تھے۔

رعنا صفوی بھی منوچي کے نظریے کی حامی ہیں۔ وہ کہتی ہیں: صرف برنیئر نے ناجائز تعلقات کے بارے میں لکھا ہے۔ وہ اورنگزیب کے ساتھ تھے اور وہ دارالشکوہ سے بہت رنجش رکھتے تھے۔ اس وقت بھی یہ کہا گیا تھا کہ یہ بازاری گپ شپ ہے اور یہ غلط ہے۔

برنیئر جانشینی کی جنگ میں اورنگزیب کے ساتھ تھے اور جہاں آرا دارالشکوہ کے ساتھ تھیں لہٰذا وہ اس طرح کی افواہوں کو ہوا دے رہے تھے۔ یہ بہت پرانی روایت ہے کہ اگر آپ ایک عورت کو ذلیل کرنا چاہتے ہیں تو اس کی کردار کشی کرنا شروع کر دیجیے

جہاں آرا تمام عمر غیر شادی شدہ رہیں۔ اس کے لیے بھی بہت سے دلائل موجود ہیں۔ مثال کے طور پر، ایک دلیل یہ ہے کہ ان کو کوئی بھی ان کے معیار کا شخص نہ مل سکا۔

دارالشکوہ اور اورنگزیب کے درمیان جنگ میں جب دارالشكوه کو شکست ہو گئی تو جہاں آرا اورنگزیب کے پاس ایک تجویز لے کر گئیں کہ مغل سلطنت کو شاہ جہاں کے چار بیٹوں اور اورنگزیب کے سب سے بڑے بیٹے کے درمیان تقسیم کر دیا جائے لیکن اورنگزیب نے اسے قبول نہیں کیا۔ جب اورنگزیب نے شاہ جہاں کو آگرہ کے قلعہ میں رکھنے کا فیصلہ کیا تو جہاں آرا نے کہا کہ وہ اپنے والد کے ساتھ رہیں گی۔

آصف خاں دہلوی بتاتے ہیں: 'جب ممتاز محل کا انتقال ہو رہا تھا تو انھوں نے شاہ جہاں کے ساتھ اپنی سب سے بڑی بیٹی جہاں آرا کو بلایا اور ان کا ہاتھ پکڑ کر ان سے یہ وعدہ لیا کہ کچھ بھی ہو جائے آپ اپنے والد کا ساتھ کبھی نہیں چھوڑیں گی

دہلوی کا کہنا ہے کہ 'تاریخ سے قطع نظر اگر اس کہانی کو آج کی نظر سے دیکھا جائے تو آپ پائيں گے کہ جہاں آرا نے اپنی مرتی ہوئی ماں کو دیے وعدے کو نبھایا۔ دارالشکوہ اور اورنگ زیب کے درمیان جنگ کے دوران جہاں آرا نے شاہ جہاں سے پوچھا کہ آپ اورنگزیب کے خلاف دارالشکوہ کا ساتھ دے رہے ہیں۔ اگر دارا کی جیت ہوتی ہے تو کیا آپ اسے تخت کی جیت کہیں گے؟

دہلوی کے مطابق 'شاہ جہاں نے اس کا ہاں میں جواب دیا۔ بہ صورت ديگر جنگ میں دارا کی ہار پر تخت کی ہار کے سوال پر وہ خاموش رہے۔‘

اورنگزیب نے جب آگرے کے قلعہ پر قبضہ کرلیا اور ان کا شاہجہاں کے لیے جو رخ تھا اسے دیکھتے ہوئے جہاں آرا نے یہ مناسب سمجھا کہ برے وقت میں وہ اپنے باپ کا ساتھ نہیں چھوڑ سکتیں۔

'دلچسپ بات یہ ہے کہ اتنا سب کچھ ہونے پر بھی اورنگزیب اپنی بڑی بہن جہاں آرا کی اتنی ہی عزت کرتے تھے جتنی وہ دارالشكوه اور شاہ جہاں کی کرتے تھے۔

دارالشکوہ کی حمایت کے باوجود اورنگزیب نے شاہ جہاں کی موت کے بعد جہاں آرا کا پادشاہ بیگم کا لقب برقرار رکھا

ارا مكھوٹي کہتی ہیں کہ 'جانشینی کی جنگ میں اورنگزیب کی چھوٹی بہن روشن آرا بیگم نے ان کا ساتھ دیا تھا، لیکن اورنگ زیب نے بڑی بہن جہاں آرا بیگم کو ہی پادشاه بیگم بنایا۔ روشن آرا بیگم نے ہمیشہ اپنے بھائی سے شکایت کی کہ انھیں وہ نہیں ملا جو انھیں ملنا چاہیے تھا۔

ایرا کہتی ہیں کہ 'جب جہاں آرا پادشاه بیگم بنیں تو انھیں قلعے کے باہر ایک خوبصورت سی حویلی دی گئی جبکہ روشن آرا بیگم کو قلعے کے اندر حرم سے نکلنے کی اجازت بھی نہیں دی گئی۔ ایسا لگتا ہے کہ اورنگزیب کو روشن آرا بیگم پر مکمل اعتماد نہیں تھا۔ ممکن ہے کہ روشن آرا بيگم کے بعض چاہنے والے ہوں اور اورنگزیب کو اس کی بھنک پڑ گئی ہو۔

ستمبر سنہ 1681 میں 67 سال کی عمر میں جہاں آرا نے وفات پائی۔ ان کی موت کی خبر اورنگزیب کو اس وقت ملی جب وہ اجمیر سے دکن کے لیے کوچ کر چکے تھے۔ انھوں جہاں آرا کے غم میں تین دن کے لیے شاہی فوج کو روک دیا۔

جہاں آرا کو ان کی خواہش کے مطابق دہلی میں معروف صوفی بزرگ حضرت نظام الدین اولیا کے مزار کے قریب دفن کیا گیا۔ انھوں نے وصیت کی تھی کہ ان کی قبر پکی نہیں بنائی جائے۔ رعنا صفوی کہتی ہیں کہ جہاں آرا اور اورنگزیب کی قبریں پکی نہیں ہیں اور وہ بہت معمولی طور پر بنائي گئی ہیں


No comments:

Post a Comment