عظیم ترک حکمران جس نے مسلمانوں کو دنیا کی طاقتورقوم بنادیا تھا۔۔۔ قسط نمبر 8.

اسے اچانک اجنبی دوشیزہ کے نکل جانے کا افسوس ہوا ا ور اس نے ایک دم فیصلہ کر تے ہوئے گھوڑے کی لگامیں ڈھیلی چھوڑ دیں۔ اب وہ مارسی کا تعاقت کر رہا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ اس لڑکی کا سراغ حاصل کرے، یہ کون ہے؟ اور اس نے جو کچھ بتایا ہے وہ کہاں تک درست ہے
ہلے پہل بگھی زیادہ تیز دوڑتی رہی ۔ لیکن شہری آبادی کے قریب پہنچتے ہی اس کی رفتار آہستہ ہونے لگی۔ ینی چری کی عسکری کالونی’’ادرنہ‘‘ سے باہر یورپی سمت پر واقع تھی۔ وہاں سے شہر تک آتے ہوئے تین سے چارکوس فاصل طے کرنا پڑتا تھا۔ فصیل شہر کے قریب پہنچنے سے پہلے یکلخت مارسی کی بگھی رک گئی۔ یہاں بھی چاندنی نے پورے ماحول کو منور کر رکھا تھا۔ قاسم کا گھوڑا ابھی بگھی کے قریب پہنچا تو مارسی نے بھی کا عقبی پردہ اٹھا دیا۔ قاسم بگھی کے بالکل عقب میں جاکر رک گیا۔ اب مارسی اور قاسم ایک دوسرے کے آمنے سامنے تھے۔ دونوں نے ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا اور پھر نہ جانے کیوں مارسی نے پلکیں جھکالیں 

قاسم کو یوں محسوس ہوا جیسے وہ مارسی کو اس سے پہلے بھی کہیں دیکھ چکا ہو۔ اس نے ذہن پر زور دینے کی کوشش کی لیکن اسے کچھ یاد نہ آیا۔ بالآ خرقاسم نے پر اعتماد لہجے میں مارسی سے سوال کیا۔

’’دیکھیے محترمہ ! آپ نے جو کچھ مجھے بتایا ہے وہ نامکمل اور ناقابل یقین ہے۔ میں اسی لیے آپ کے پیچھے چل پڑا تھا تاکہ آپ سے مزید کچھ پوچھ سکوں۔ اس کے علاوہ میں یہ بھی چاہتا ہوں کہ آپ نے یہ سب کچھ بتانے کے لیے میرا انتخاب ہی کیوں کیا؟آپ چاہتیں تو سلطان تک خود بھی پہنچ سکتی تھیں۔ سلطان کے علاوہ دیگر عمائدین سلطنت بھی بے شمار ہیں۔ لیکن آپ نے یہ سب کچھ بتانے کے لیے مجھے یعنی ایک بالکل نئے اور اجنبی شخص کو چناہے۔‘‘ قاسم بات کرنے کے دوران گھوڑے سے اتر آیا تھا

مارسی نے قاسم کو جواب دیا۔ ’’محترم سالار ! آپ ’’ادرنہ‘‘ کے لیے اجنبی ہوسکتے ہیں لیکن میرے لیے آپ بالکل اجنبی نہیں ہیں۔ میں نے آپ کو اپنا تعاقب کرتے دیکھا تو از خود رک گئی تاکہ شہر میں داخل ہونے سے پہلے آپ کو اپنی مجبوری سمجھا سکوں اس وقت ادرنہ میں آپ کے علاوہ کوئی ایسا شخص مجھے دکھائی نہیں دیا جس تک میری آسانی سے رسائی ہو یا میں اس پر اعتماد کر سکوں۔ میں نے آپ کا انتخاب اس لیے بھی کیا کہ آپ تہوار والے روز سکندر کو شکست دے چکے ہیں اور ایک ہی مقابلے میں اس کی شیطانی فطرت سے آگاہ ہوچکے ہیں..............میری آپ سے یہ درخواست ہے کہ خدارا!جب میرے لیے مناسب ہوا میں خود ہی آپ کو بتادوں گی کہ میں کون ہوں

اب دراز قد قاسم مارسی کے بالکل نزدیک کھڑا تھا۔ اس نے مارسی کی آنکھوں میں صبح کے ستارے کی جھلمل بھی دیکھی تھی اور شفق کی اداسی بھی۔ یہ لڑکی قاسم کے تصور سے زیادہ حسین تھی۔ اس کی لمبی سیاہ پلکیں جھپ جھپ جھپکتی تھیں تو ایسے لگتا تھا جیسے چاندنی سے سحر کا جھٹپٹا آنکھ مچولی کھیل رہا ہو۔ مارسی کی شفاف اور چوڑی پیشانی اس کی ذہانت کا ثبوت تھی۔ اس کا جسم نازک بھی تھا اور سڈول بھی۔ یوں لگتا تھا جیسے کسی یاقوت کی مورتی نے لباس پہن رکھا ہو۔ قاسم کا ذہن مارسی کا حسن دیکھ کر ڈگمگانے لگا تھا ۔ اس نے خود کو سنبھالا اور زیر لب مسکراتے ہوئے کہا

آپ نے جو کچھ مجھے بتایا میں یہ سلطان کو نہیں بتا سکتا ۔ کیونکہ بغیر کسی ثبوت کے سکندر جیسے سلطان کے مقرب شخص پر انگلی اٹھا نا دانشمندی نہیں..................ہاں، میں اپنے طور پر سکندر بیگ کی حقیقت جاننے کی کوشش کروں گا۔ آپ مجھے اپنے بارے میں نہیں بتانا چاہتیں تو نہ سہی................لیکن میں چاہتا ہوں کہ میں اس سلسلے میں آپ سے پھر ملنا چاہوں تو مل سکوں۔ شاید آپ میری بات سمجھ رہی ہیں۔‘‘ قاسم نے مارسی کی نیلگوں آنکھوں میں غوطہ لگاتے ہوئے کہا۔

مارسی، قاسم کی حالت سمجھ رہی تھی اور وہ دل ہی دل میں خوش بھی ہورہی تھی۔ اندھا کیا چاہے دو آنکھیں ۔ مارسی کو تو خود قاسم جیسے مضبوط شخص کی ضرورت تھی۔ وہ اگر قاسم کے ساتھ دل کا سودا کرلیتی اور قاسم بھی اس کی محبت کا جواب محبت سے دے دیتا تو یہ مارسی کے لیے آنے والے خطرات سے بچنے کا واحد کامیاب راستہ تھا۔ مارسی نے قاسم کی بات سنی اور کچھ دیر سوچنے کے بعد مدھم آواز میں کہا

’’ٹھیک ہے.................میں آپ سے خود ملاقات کر لوں گی.............. آپ تکلیف مت کیجیے گا۔‘‘

’’لیکن آپ کو کیسے معلوم ہوگا کہ میں آپ سے ملنا چاہتا ہوں؟‘‘ قاسم نے مارسی کی بات کاٹ کر کہا۔

’’اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ میرا بااعتماد ملازم ’’اکبر‘‘ آپ کی خدمت میں گاہے بگاہے حاضر ہوتا رہے گا۔ ‘‘مارسی نے مسئلے کا حل بتایا۔

قاسم نے پھر کہا۔ ’’کیا آپ کا ملازم یہی کوچوان تو نہیں جو اس وقت آپ کی بگھی چلا رہا ہے

جی ہاں................ یہی ہے۔ میں اسے اچھی طرح سے سمجھادوں گی کہ اسے کیا کرنا ہے۔‘‘

’’اچھا ! ایک آخری بات بتائیے۔ آپ نے ایک شخص کا نام لیا..............ابو جعفر!.............اس شخص کے بارے میں آپ کچھ اور بتا سکتی ہیں؟‘‘ قاسم نے معاً ابوجعفر کا خیال آتے ہی کہا تو مارسی بولی۔

’’فی الحال تو میں اس سے زیادہ کچھ نہیں بتا سکتی کہ یہ شخص سلطنت عثمانیہ کے خلاف ہونے والی ہر سازش میں شریک ہے۔ لیکن اس سے زیادہ میں اس لیے کچھ نہیں بتا سکتی کہ ابھی تک اس کے خلاف کوئی ثبوت میرے سامنے نہیں ہے۔ یہ شخص انتہائی مکار اور شاطر ہے اور میرا اندازہ ہے کہ اس نے ینی چری کے سپہ سالار اور سلطان کے بعض رشتہ داروں تک بھی رسائی حاصل کر رکھی ہے۔‘‘

ابو جعفر کے بارے میں سن کر قاسم کو بہت زیادہ حیرت ہوئی۔ کیونکہ وہ ابوجعفر سے مل چکا تھا۔ ابو جعفر اس کے بھائی کے گھر پر آیا تھا اور قاسم اسی دن اس کی سانپ جیسی تیز آنکھوں سے محتاط ہوگیا تھا۔ قاسم ابھی مزید کوئی بات کرنا چاہ رہا تھا کہ مارسی نے یکلخت اجازت مانگ لی۔ مارسی کے ہونٹوں پر ایک ملکوتی مسکراہٹ تھی اور وہ مکھن جیسے لہجے میں کہہ رہی تھی۔

’’اب مجھے اجازت دیجیے ! مجھے دیر ہو رہی ہے۔‘‘

قاسم نے بے دلی سے سر ہلایا اور مارسی نے کوچوان لڑکے کو چلنے کا اشارہ دے دیا۔ اگلے لمحے بگھی حرکت میں آئی اور ہو ا ہوگئی۔ قاسم ڈھیلے قدموں سے گھوڑے پر سوار ہوا ا ور گھر کی جانب چل دیا۔

جب سے سکندرا درنہ چھوڑ کر گیا تھا ابو جعفر کی سرگرمیاں پہلے سے زیادہ تیز ہوگئی تھیں۔ کیونکہ اس کا سب سے بہترین مہرہ اپنے ہدف کی طرف روانہ ہوچکا تھا۔ یعنی سکندر بیگ بہت سے خطرناک اور مذموم مقاصد لے کر مغربی سرحدات کی جانب جا چکا تھا۔ ابوجعفر نے ’’ادرنہ‘‘ میں بیٹھ کر دو بڑے منصوبے ترتیب دیے تھے۔ ایک تھا سکندر بیگ کو البانیہ کے ملک میں بغاوت پروان چڑھانا۔ سکندر بیگ کے سلسلے میں تو اب تک جو کچھ ابو جعفر نے چاہا تھا حرف بہ حرف پورا ہوا تھا۔ اور اب سکندر اپنی آخری ہدایات لے کر اپنے مشن پر جاچکا تھااور چند ہی دنوں میں البانیہ کی طرف سے سلطان مراد خان ثانی کو ایک بہت بڑا صدمہ پہنچنے والاتھا۔ ادھر ابوجعفر کی ینی چری میں بغاوت پھیلانے کی سازش بھی پایہء تکمیل کو پہنچنے والی تھی۔ ینی چری میں بعض ایسے نو مسلم سپاہی بھی ہوا کرتے تھے جن کے سچے دل سے اسلام قبول کرنے میں کچھ نہ کچھ کمی رہ جاتی ۔ ابو جعفر کا شکار ایسے ہی نوجوان تھے اور اس نے بہت سے نوجوانوں کو مختلف طریقوں سے اپنی سازش میں شامل کر لیا تھا۔

ابو جعفر بہت خوش تھا۔ کیونکہ اس کا مشن کامیابی کے ساتھ انجام تک پہنچنے والا تھا۔ وہ گزشتہ کئی سالوں سے ’’ادرنہ ‘‘ میں تھا۔ لیکن وہ کبھی کسی کی نگاہوں میں نہ آیا۔ اور اب تو ادرنہ میں اس کا کام بھی قریب الاختتام تھا۔ اسے سکندر بیگ کی بغاوت کا انتظار تھا۔ ’’البانیہ ‘‘ سے خود مختاری کا اعلان ہونے کی دیر تھی کہ یہاں ’’ادرنہ‘‘ میں بھی ینی چری کے بعض سالار ہتھیار اٹھا کر اہلیان شہر کو یرغمال کر لیتے۔ ینی چری کے بعض سالاراور سلطان کے کچھ رشتہ دار محل کو سنبھالنے کے لیے تیار بیٹھے تھے۔ اس طرح ابو جعفر ’’قیصر قسطنطنیہ ‘‘ کے حکم سے سلطنت عثمانیہ کی تباہی کا مکمل سامان کر چکا تھا۔ ادھر چند ہی دن ہوئے یہ خبر گردش کر رہی تھی کہ سلطان کی بعض یورپی باجگزار ریاستیں بغاوت کا اعلان کرچکی ہیں۔ جبکہ بوسنیا ، سربیہ اور ہنگری کی فوجیں ’’ہونیاڈے‘‘ کے پرچم تلے جمع ہونے لگی تھیں۔ دراصل سربیہ کا بادشاہ ’’لارڈسٹیفن‘‘ جو سلطان مراد خان ثانی کا سسر بھی تھا جب سے فوت ہوا تھا، سربیہ نے سلطنت عثمانیہ سے علیحدگی اور اپنی خود مختاری کا اعلان کر دیاتھا۔

لارڈ سٹیفن کا جانشین ’’جارج برنیک وچ‘‘ تھا۔ یہ شخص اپنے پیش رو کی طرح مآل اندیش اور سنجیدہ مزاج نہ تھا۔ اس لیے قیصر قسطنطنیہ کو اس کی طرف ریشہ دوانیوں کا موقع مل گیا۔ قیصر اندر ہی اندر جارج برنیک اور ہنگری والوں کو سلطان مرادخان ثانی کے خلاف برانگیختہ کرنے میں مصروف رہا۔ ہنگری والے بھی اب چونکہ ’’نکوپولس‘‘ کی شکست کے تلخ تجربہ کو بھول چکے تھے لہٰذا وہ بھی عثمانی سلطنت کے خلاف تیاریاں کرنے لگے ۔ اور کئی سال تک ان تیاریوں کے سلسلے کو جاری رکھا۔

اسی اثناء میں سلطان مراد خان ثانی نے 1430 ؁ء میں ’’جزیرہ زانٹی‘‘اور ’’یونان‘‘ کے جنوبی حصہ سمیت ’’سالونیکا‘‘ کت کا علاقہ فتح کر کے وینس والوں کو شکست فاش دی۔ اور وینس کی ریاست نے نہایت ذلیل شرطوں کے ساتھ دب کر سلطان سے صلح کی۔ وینس چونکہ قیصر قسطنطنیہ کا طرفدار تھا اس لیے شاہ قسطنطنیہ کو اور بھی زیادہ ملال ہوا۔ چنانچہ قیصر اپنے سازشی کاموں میں پہلے سے دگنی توجہ کے ساتھ مصروف ہوگیا۔ ایک طرف یہاں ادرنہ میں اس کے جاسوس اب کامیابی کے قریب تھے اور دوسری طرف سربیہ ، رومانیہ ، ہنگری اور کروٹیا کے عیسائی سلطان کے خلاف علم بغاوت بلند کرچکے تھے۔ اگرچہ ان بغاوتوں کا سن کر ایک مرتبہ 1438 ؁ء میں سلطان ان کی سرکوبی کے لیے لشکر کشی کرچکا تھا اور سلطان نے اس حملے کے دوران ستر ہزار عیسائیوں کو میدان جنگ میں قید کر کے اپنی قوت و سطوت کی خوب دھاک بٹھائی تھی۔ لیکن جونہی سلطان ان محاذوں سے واپس لوٹا، ان علاقوں میں پھر بغاوت اٹھ کھڑی ہوئی۔(جاری ہے )


 

No comments:

Post a Comment