اللہ والوں کے قصّے.......قسط نمبر 12.


کسی بزرگ نے خواب میں دیکھا کہ حضرت مالک دینارؒ اور حضرت محمّد واسعؒ کو بہشت کی جانب لے جایا جا رہا ہے۔اس بزرگ کے دل میں خیال آیا کہ د یکھو مالک دینارؒ جنّت میں پہلے پہنچتے ہیں،یا محمّد واسعؒ تو مالک دینارؒ سے زیادہ عامل و کامل تھے۔
ملائکہ نے جواب دیا کہ یہ تم صیحح کہتے ہو لیکن محمد واسعؒ کے پاس پہننے کیلئے وہ دو لباس تھے اور مالک کے پاس صرف ایک۔لہذا صبرو ضبط کی نسبت مالکؒ کی طرف زیادہ تھی۔اس لیے پہلے انہیں جنت بھیجا گیا۔
ایک دفعہ حضرت رابعہ بصریؒ بوجہ تکان نماز ادا کرتے ہوئے سو گئیں ۔اسی دوران ایک چور آپ کی چادر اٹھا کر فرار ہونے لگا لیکن اسے باہر نکلنے کا راستہ ہی نظر نہ آیا لیکن چادر اپنی جگہ رکھتے ہی راستہ نظر آگیا۔چور نے بوجہ حرص پھر چادر اٹھا کر فرار ہونا چاہا اور پھر راستہ نظر آنا بند ہو گیا
غرضیکہ اسی طرح اس نے کئی مرتبہ کیا اور ہر مرتبہ راستہ مسدود نظر آیا حتیٰ کہ اس نے ندائے غیبی سنی۔’’تو خود کو آفت میں کیوں مبتلا کرنا چاہتا ہے ۔اس لیے کہ چادر والی نے برسوں سے خود کو ہمارے حوالے کر دیا ہے اور اس وقت سے شیطان تک اس کے پاس نہیں پھٹک سکا پھر کسی دوسرے کی کیا مجال کہ جو چادر چوری کرسکے۔کیونکہ اگر چہ ایک دوست محو خواب ہے لیکن دوسرا دوست تو بیدارہے۔‘‘اس پر چور تائب ہوگیا
ایک دن حضرت رابعہ بصریؒ ایک پہاڑی پر تشریف لے گئیں اور تمام صحرائی جانور آپؒ کے گرد جمع ہو گئے لیکن اسی وقت جب خواجہ حسن بصریؒ وہاں پہنچے تو وہ تمام جانور فرار ہوگئے۔
حسن بصریؒ نے حیرت زدہ ہو کر آپ سے سوال کیا کہ یہ تمام جانور مجھے دیکھتے ہی فرار کیوں ہوگئے۔اس پر حضرت رابعہ بصریؒ نے حیرت زدہ ہو کر آپ سے سوال ’’ آج آپ نے کیا کھایا ہے‘‘تو انہوں نے کہا کہ’’گوشت روٹی
یہ سُنکر آپؒ نے فرمایا کہ ’’جب تم ان کا گوشت کھاؤ گے تو پھر یہ تم سے کیوں کر مانوس ہو سکتے ہیں
ایک روز جب حضرت رابعہ بصریؒ ساحل فرات پر موجود تھیں تو اچانک حسن بصریؒ بھی وہاں پہنچ گئے اور پانی پر مصلّےٰ بچھا کر فرمایا۔’’آئیے ہم دونوں نماز ادا کریں۔‘‘ لیکن رابعہؒ نے جواب دیا۔’’اگر یہ مخلوق کے دکھاوے کیلئے ہے تو بہت اچھا ہے۔کیونکہ دوسرے لوگ ایسا کرنے سے قاصر ہیں‘‘
یہ کہہ کر رابعہ بصریؒ نے اپنا مصلّےٰ ہوا کے دوش پر بچھا کر فرمایا۔’’آئیے دونوں یہاں نماز ادا کریں تاکہ مخلوق کی نگاہوں سے اوجھل رہیں۔‘‘
پھر بطور دل جوئی رابعہ بصریؒ نے فرمایا ’’ جو فعل آپؒ نے سرانجام دیا۔وہ تو پانی کی معمولی سی مچھلیاں بھی کر سکتی ہیں او جو میں نے کیا وہ ایک حقیر سی مکھی بھی کرسکتی ہے۔لیکن حقیقت کا ان دونوں سے کوئی تعلق نہیں ہے
قادسیہ میں ایک مرتبہ آواز سنائی دی ’’ اے لوگو!فلاں جنگل میں ایک اورلیاء اﷲ کسی مصیبت میں گرفتار ہیں جلد جا کر ان کی خبر لو کہ زیادہ دکھ میں مبتلا نہ ہو جائیں۔‘‘
یہ سن کر سب شہر والے اس مقام پر پہنچے۔دیکھا تو حضرت ابوالحسن نوریؒ ایک گڑھے میں پڑے ہیں اور بُرا حال ہے۔لوگوں نے انہیں ادب اور حفاظت کے ساتھ گڑھے میں سے نکالا۔سوار کرکے شہر میں لائے ۔ابوالقاسم نے اپنے مکان میں ٹھہرایا۔چند روز کے بعد جب دوبارہ سفر کا ارادہ کیا تو ابوالقاسم نے پوچھا۔’’حضرت اس قدر مصیبت احتیار کرنے میں کیا حکمت ہ
آپؒ نے فرمایا۔’’مدت سے اس جنگل میں سیر کرتا پھرتا تھا جب اس شہر کے نزدیک آیا تو میرا نفس بے حد خوش ہوا ۔میں نے اپنے جی میں کہا اس شہر میں ہمارے بہت سے دوست آشنا ہیں خوب دعوتیں کھائیں گے اور چین سے رہیں گے سب دکھ سفر کے بھول جائیں گے مجھ کو اپنے نفس کی خوشی سے بہت دکھ ہوا ۔دل میں خیال کیا کہ صرف دعوت کھانے کے خیال سے اس قدر اچھلتاکودتا ہے ۔کھا پاوے گا تو نہ جانے کون کون سی آفت اور قیامت بر پا کرے گا۔قسم خدائے پاک کی تجھ کو صورت اس شہر کی نہ دکھاؤں گا اگرچہ تو تڑپ کر مر جائے
ایک دن کوئی عورت حضرت حاتم اصمؒ کے پاس کوئی مسئلہ پوچھنے آئی۔اتفاق سے اس عورت کی ریح خارج ہو گئی جس کی وجہ وہ بہت شرمندہ ہوئی لیکن حضرت حاتم ؒ نے فرمایا’’ ذرا اونچا بولو ،مجھے کم سنائی دیتا ہے ‘‘پھر اس نے بلند آواز سے مسئلہ پوچھا تو آپ نے جواب دے دیا۔
درحقیقت آپ بہرے نہیں تھے بلکہ اس عورت کی شرمندگی رفع کرنے کیلئے جان بوجھ کر بہرے بن گئے تھے اور جب تک وہ عورت زندہ رہی آپ مسلسل بہرے بنے رہے اسی مناسبت سے آپ کو اصم کہا جاتا ہے۔جاری ہے


 

No comments:

Post a Comment